جرمنی کی مانہایم یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بھارت کے دیہی علاقوں میں جانچ پڑتال کی گئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ بھارت سمیت جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی 52 فیصد حاملہ اور 47 فیصد خواتین (جو حاملہ نہیں ہوتیں) کو خون کی کمی کے عارضے کا سامنا ہوتا ہے۔
انیمیا کے شکار افراد کے خون میں ہیموگلوبن کی سطح کم ہوجاتی ہے اور اس کی علامات میں کمزوری، سانس لینے میں دشواری، سر چکرانا، دل کی تیز یا بے ترتیب دھڑکن قابل ذکر ہیں۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ حمل کے دوران خون کی کمی کی شکار خواتین یا ان کے بچوں میں وبائی امراض کا خطرہ نہیں بڑھتا۔
محققین نے بتایا کہ حمل کے دوران انیمیا غریب اور متوسط آمدنی والے ممالک کی خواتین میں بہت تیزی سے پھیلنے والا مسئلہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر خواتین حاملہ ہونے سے پہلے ہی غذائی کمی کی شکار ہوتی ہیں اور حمل کے دوران بھی مناسب مقدار میں غذا سے محروم رہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین میں خون کی کمی اور ان کے بچوں میں انیمیا میں تعلق بہت زیادہ تشویشناک ہے۔
محققین نے کہا کہ صحت کے عوامی نظام میں ہر خاتون کے لیے حمل کے دوران ہر طرح کی نگہداشت کی فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں میں مختلف امراض کی منتقلی کی ابتدا میں ہی روک تھام کی جاسکے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ آئرن کی کمی مختلف ممالک میں خواتین میں خون کی کمی کی بنیادی وجہ ہے جبکہ فولک ایسڈ اور وٹامن اے کی کمی کے باعث انیمیا وبائی اور جینیاتی عارضے کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق حمل کے دوران ہیموگلوبن کی سطح میں کمی کو پہلے ہی قبل از وقت پیدائش اور کم پیدائشی وزن کا باعث بننے والا عنصر سمجھا جاتا ہے۔
اس تحقیق میں بھارت کے 140 دیہات کی ایک ہزار ماؤں اور بچوں کو شامل کیا گیا تھا اور ان میں حمل کے دوران خون کی کمی سے بچوں میں ابتدائی نشوونما، بچوں میں ہیموگلوبن کی سطح اور وبائی امراض کے خطرے جیسے عناصر کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ حمل کے دوران خواتین کے ہیموگلوبن کی سطح اور حمل کے دوران انیمیا کا بچوں میں ہیموگلوبن کی سطح سے گہرا تعلق ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ حمل کے دوران خون کی کمی پیدائش کے وقت کم وزن اور قبل از وقت پیدائش کا باعث بن سکتا ہے جبکہ ان بچوں میں بچپن میں متعدد طبی پیچیدگیوں کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے بی ایم جے اوپن میں شائع ہوئے۔