پاکستان

دفاعی زمین تجارتی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کی جاسکتی، زمین حکومت کو واپس کریں، چیف جسٹس

کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں گرا رہے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں، جسٹس گلزار احمد
|

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دفاعی مقاصد کے لیے حاصل کی گئی زمین کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، زمین حکومت کو واپس دی جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کنٹونمنٹ اراضی پر کمرشل سرگرمیوں کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے سیکریٹری دفاع کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا سینما، شادی ہال، اسکول اور گھر بنانا دفاعی مقاصد ہیں؟

ایسا نہیں ہو سکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ سینما، شادی ہال اور گھر بنانا اگر دفاعی سرگرمی ہے تو پھر دفاع کیا ہوگا؟ کراچی میں تمام غیر قانونی عمارتیں مسمار کروارہے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیں، فوج کی غیر قانونی تعمیرات کو چھوڑ دیا تو باقی کو کیسے گرائیں گے؟

مزید پڑھیں: کیا شادی ہالز، سینما دفاع کیلئے ہیں؟ چیف جسٹس کی عسکری زمین کے کمرشل استعمال پر سرزنش

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج کے ساتھ قانونی معاونت نہیں ہوتی، وہ جو چاہتے ہیں کرتے رہتے ہیں، فوج جن قوانین کا سہارا لے کر تجارتی سرگرمیاں کرتی ہے وہ غیر آئینی ہیں، کارساز میں سروس روڈ پر بڑی بڑی دیواریں بنا کر اندر تعمیرات کر دی گئی ہیں، کنٹونمنٹ زمین کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ کارساز اور راشد منہاس روڈ پر اشتہارات کے لیے بڑی بڑی دیواریں تعمیر کر دی گئیں، فیصل بیس پر اسکول، شادی ہالز بھی بنے ہوئے ہیں، کوئی بھی دہشت گرد شادی کا مہمان بن کر رن وے پر بھاگ جائے گا، مسرور اور کورنگی ایئربیسز بند کیے جا رہے ہیں، کیا اب ایئربیس بند کر کے وہاں کمرشل سرگرمی شروع کی جائیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کنٹونمنٹ زمین دفاعی مقاصد پورا ہونے پر حکومت کو واپس کرنا ہوتی ہے، یہ زمین حکومت نے جن لوگوں سے لی ہے انہیں واپس کریں۔

اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا، جسٹس گلزار احمد

انہوں نے ریمارکس دیے کہ فوج کو معمولی کاروبار کے لیے اپنے بڑے مقاصد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، فوج کو اپنے ادارے کے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے، کوئٹہ اور لاہور میں بھی دفاعی زمین پر شاپنگ مالز بنے ہوئے ہیں، سمجھ نہیں آرہی وزارت دفاع کیسے ان سرگرمیوں کو برقرار رکھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ فوجی افسران کو گھر دینا دفاعی مقاصد میں نہیں آتا، فوج ریاست کی زمین پر کمرشل سرگرمیاں کیسے کر سکتی ہے؟ ریاست کی زمین کا استحصال نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یہ شہر ہے ہی نہیں کچرا ہے، چیف جسٹس کراچی تجاوزات کیس میں حکومت سندھ پر برہم

انہوں نے کہا کہ یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں پورے ملک کا یہی حال ہے، ایک ریٹائرڈ میجر گلوبل مارکی کے لیے زمین کیسے لیز پر دے سکتا ہے؟ریٹائرڈ میجر کا کیا اختیار ہے کہ دفاعی زمین لیز پر دے سکے، فوج نے ریٹائرڈ میجر کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی افسران نے کروڑوں کی زمین چند لاکھ میں فروخت کی، فوج کی تمام رولز اور قوانین کا آئین کے تحت جائزہ لیں گے، فوج کاروبار کرنے کے لیے نہیں بلکہ ملک کے دفاع کے لیے ہوتی ہے۔

کالا پُل کے ساتھ والی دیوار، گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرانے کا حکم

دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، فوج کو قانون کون سمجھائے گا؟ پرل مارکی اور گرینڈ کنونشن ہال ابھی تک برقرار ہیں، کالا پُل کے ساتھ والی دیوار اور گرینڈ کنونشن ہال آج ہی گرائیں۔

انہوں نے کہا کہ راتوں رات گزری روڈ پر فوج نے بہت بڑی عمارت کھڑی کر دی ہے، گلوبل مارکی سے روزانہ کروڑوں روپے کمائے جارہے ہیں۔

جسٹس قاضی امین نے ایک موقع پر ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آتا فوج کو کاروباری سرگرمیاں کرنے کی ضرورت کیا ہے؟

فوجی سرگرمیوں کے لیے گیریژن اور رہائش کے لیے کنٹونمنٹس ہوتے ہیں، سی ایس ڈی پہلے صرف فوج کے لیے تھا اب وہاں ہر بندا جارہا ہوتا ہے۔

سیکریٹری دفاع نے عدالت کو بتایا کہ قانون کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کے لیے تینوں افواج کی مشترکہ کمیٹی بنا دی ہے۔

مزید پڑھیں: نالوں کے ساتھ انسداد تجاوزات مہم سے متاثرہ افراد پناہ کے منتظر

عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی طرف سے سیکریٹری دفاع کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ واپس لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے سیکریٹری دفاع سے چار ہفتے میں پیش رفت اور عملدرآمد رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ماہ تک کے لیے ملتوی کر دی۔

یاد رہے کہ 26 نومبر کو بینچ نے دفاعی مقاصد کے لیے دی جانے والی زمین تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے متعلق معاملے کی سماعت کراچی رجسٹری میں کی تھی جہاں سیکریٹری دفاع سے استفسار کیا گیا کہ کیا آپ کے پاس تحریری رپورٹ ہے؟۔

جس پر سیکریٹری دفاع نے تحریری رپورٹ جمع کرانے کے لیے عدالت عظمیٰ سے مہلت طلب کی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ زمین پر شادی ہالز، سینما، ہاؤسنگ سوسائٹیز بنادیں، کیا یہ دفاع کے لیے ہے؟ ایک کرنل اور میجر بادشاہ بنا ہوا ہے، وہ جو چاہتے ہیں ہو جاتا ہے۔

جس پر سیکریٹری دفاع نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کرلیا ہے آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔

جسٹس قاضی امین نے سیکریٹری دفاع کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ یہ آپ کیا کہ رہے ہیں، جو کیا ہے وہ سب ختم کرنا ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ تمام چیفس کو بتادیں کہ دفاعی مقاصد کی زمین کمرشل مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔

انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ تمام فوجی چھاؤنیوں میں جائیں اور بتائیں زمین صرف اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال ہوگی، مسرور بیس کیماڑی اور فیصل بیس سب کمرشل کیا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ سائن بورڈز ہٹانے کا کہا تو اس کے پیچھے بڑی بڑی عمارتیں بنادی گئیں۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے مقدمے کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ سماعت 30 نومبر کو اسلام آباد میں ہوگی۔

لاہور: بدعنوانی اور بے ضابطگیوں پر سول جج عہدے سے فارغ

’گوادر کو حق دو‘ ریلی میں خواتین، بچوں کی بڑی تعداد میں شرکت

عابد علی کی شاندار بلے بازی، پہلے ٹیسٹ میں بنگلہ دیش کو 8 وکٹوں سے شکست