کسی کے کہنے یا کسی ادارے کے دباؤ پر کبھی کوئی فیصلہ نہیں دیا، چیف جسٹس پاکستان
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ ہمیں روکنے کی آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی اور کسی کے کہنے یا کسی ادارے کے دباؤ پر میں نے کبھی کوئی فیصلہ نہیں دیا۔
لاہور میں انسانی حقوق کی علمبردار مرحومہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ علی احمد کرد صاحب نے اگر میری عدالت کے بارے میں کوئی بات کی تو میں اس بات کو بالکل قبول نہیں کروں گا، میری عدالت میں جج انتہائی تندہی کے ساتھ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میری ماتحت عدالتیں بھی تندہی سے کام کر رہی ہیں اور لوگوں کی فلاح کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بیان دینا کہ ہماری عدالتیں ماتحت ہیں یہ بالکل غلط ہے، کوئی ہمیں احکامات نہیں دیتا، مجھے کبھی کسی نے کوئی ڈکٹیشن دی نہ ہی میرے کسی جج نے ایسا کیا۔
جسٹس گلزار احمد نے علی احمد کرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ شائع ہونے والے فیصلوں کو پڑھیں اور دیکھیں کہ کیسے سپریم کورٹ آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: جب تک ججز مکمل آزاد اور دباؤ سے بالاتر نہ ہوں، انصاف ممکن نہیں، چیف جسٹس
واضح رہے کہ سینئر وکیل و سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کرد نے کانفرنس سے خطاب میں عدلیہ پر اداروں کے دباؤ کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ملک میں کونسی عدلیہ موجود ہے، وہ عدالتیں جن میں ہم اور لاکھوں لوگ روز دادرسی اور انصاف کے لیے پیش ہوتے ہیں وہ اپنے سینوں پر زخم لے کر جاتے ہیں، یہ عدلیہ انسانی حقوق کا تحفظ اور جمہوریت کو مضبوط کرے گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک کی عدلیہ میں تقسیم ہے، یہ 22 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایک جرنیل اس عوام پر بھاری ہے، یا اس جرنیل کو نیچے آنا پڑے گا یا لوگوں کو اوپر جانا پڑے گا، اب برابری ہوگی اور جرنیل اور ایک عام شہری میں کوئی فرق نہیں ہوگا‘۔
ان کا ممکنہ طور پر عالمی انصاف منصوبے کے رول آف لا انڈیکس 2021 کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’اسی جرنیل نے ہماری عدلیہ کو دنیا کے 130 ممالک میں سے 126ویں نمبر پر پہنچا دیا ہے، ملک کا دانشور طبقہ کب سے ختم ہوچکا ہے اس لیے جو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں وہ چھوٹے قد کے لوگ ہیں‘۔
علی احمد کرد نے کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے اور ان کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کریں گے جو 70 سال سے ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں، ملک میں اب کوئی قیادت نہیں رہی، جو بھی آئے گا وہ اور چھوٹے قد کا شخص ہوگا، یہ ملک جس حالت میں پہنچ گیا ہے، ملک کے عوام سے کہتا ہوں کہ باہر نکلیں کیونکہ یہ ملک ہاتھوں سے ریت کے ذرات کی طرح ختم ہو رہا ہے، اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں ورنہ جن حالات کی طرف یہ جارہا ہے ہم اسے برقرار نہیں رکھ سکیں گے‘۔
چیف جسٹس پاکستان نے خطاب میں کہا کہ یہ بیان دینا کہ ہم کسی کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں یہ غلط ہے، مجھے ایسا کوئی موقع یاد نہیں ہے کہ کسی کے کہنے یا کسی ادارے کے دباؤ پر کوئی فیصلہ دیا ہو، مجھے کبھی کسی نے نہیں کہا کہ میں اپنا فیصلہ کیسے لکھوں، میں نے کبھی کوئی فیصلہ کسی کے کہنے پر نہیں کیا نہ کسی کی جرأت ہے کہ مجھے کچھ کہے۔
یہ بھی پڑھیں: عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے عدلیہ اپنے امور انجام دیتی رہے گی، سپریم کورٹ
ان کا کہنا تھا کہ بھر میں اسی طرح فیصلے کیے جاتے ہیں، کہیں غلط فیصلے آتے ہیں کہیں صحیح فیصلے آتے ہیں، ہر ایک کو اختلاف رائے کا حق ہے لیکن اپنے اختلاف کو ثابت کریں، یہی ہماری عدلیہ کی خوبصورتی ہے۔
ملک میں آزادی صحافت، خواتین کے حقوق کو خطرات کا سامنا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خطاب میں کہا کہ آئین دو درجن سے زائد انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرتا ہے جبکہ پاکستان میں آزادی صحافت، معلومات تک رسائی اور لڑکیوں کی تعلیم سمیت خواتین کے حقوق کو خطرات کا سامنا ہے۔
انہوں نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا تذکرہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر رہی ہیں اور ایک تقریب میں جہاں بھارتی مندوب بھی موجود تھے، میں نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ آپ کے ملک میں بار ایسوسی ایشن کی صدر کوئی خاتون نہیں رہیں، اس لیے یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ’ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ 50 ممالک کی فہرست میں پاکستان واحد ملک ہے کہ جہاں پہلی وزیر اعظم خاتون مسلمان تھیں‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے سچ کو قبول نہیں کیا تو واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا۔
سپریم کورٹ کے جج نے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 18-2017 کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 130واں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ناقابل معافی ہے، یہ میں نے اس لیے کہا کہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مسودے پر دستخط کرنے والے 140 ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا اور لیاقت علی خان نے اس پر دستخط کیے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’جمہوریت کی بھیک نہیں مانگیں بلکہ یہ حق ہے کہ آپ جمہوریت کا مطالبہ کریں‘ اور حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ ’سب سے افضل جہاد ظالم کے سامنے حق بات کرنا ہے‘۔
انہوں نے ایک فیصلے کا حوالہ دے کر کہا کہ ’اگر وزیر اعظم، قومی نشریاتی ادارے پر بطور پارٹی لیڈر بات کرتا ہے تو اپوزیشن کو بھی اس کا پورا حق ہے اور اگر اپوزیشن کو یہ موقع فراہم نہیں کیا جاتا تو امتیازی سلوک یا رویہ ہے‘۔
مزید پڑھیں: اگر کوئی جج فیصلہ نہیں کر رہا تو لوگ اس کی عزت کیوں کریں گے، چیف جسٹس
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختلف ادوار میں جمہوریت کے خلاف آمرانہ اقدامات پر بھی بات کی۔
انہوں نے مختلف حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جہاں عدلیہ نے جمہوریت کے کاز کے تعین کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔
غلطیوں کا اعتراف بہتری کی جانب پہلا قدم ہے، جسٹس اطہر من اللہ
قبل ازیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے خطاب میں کہا کہ عدلیہ کو تاریخی فیصلوں پر فخر ہونا چاہیے اور غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 2007 میں وکلا نے تاریخی تحریک کی قیادت کی، یہ تحریک ججز کی بحالی کی نہیں آزادی اور جمہوریت کے لیے تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ آزادی کے بعد 1954 میں تمیزالدین خان کیس عدلیہ کا پہلا امتحان تھا جس پر عدلیہ کو فخر ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر جسٹس منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت نے تمیزالدین کیس کا فیصلہ واپس نہ لیا ہوتا تو اس ملک کا مستقبل مختلف ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈوسو کیس، محترمہ نصرت بھٹو کیس اور ظفر علی شاہ کیس عدلیہ کی تاریخ کا حصہ ہیں جس کو ہم مٹا نہیں سکتے، ان فیصلوں نے غیر جمہوری طاقتوں کو مضبوط کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو دباؤ میں آکر پھانسی کی سزا سنانا ادارے کے لیے باعث شرمندگی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ملک کی تاریخ موڑنے میں عدلیہ کا کردار اہم تھا جس سے ہم آنکھیں نہیں پھیر سکتے، ملکی تاریخ کا نصف دور آمریت میں گزرا، غاصبانہ حکومتوں نے بنیادی حقوق اور آزادی چھین لی تھی۔
انہوں نے کہا کہ غلطیوں کا اعتراف بہتری کی جانب پہلا قدم ہے، میڈیا، سول سوسائٹی اور عدلیہ کو مل کر انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا آزاد نہیں ہوگا تو عدلیہ بھی آزاد نہیں ہوگی لیکن میڈیا کو ذمہ دار ہونا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ آج یہاں اس کانفرنس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے نمائندے کی حیثیت سے یہ عزم کرتے ہیں کہ اپنی غلطیاں دوبارہ نہیں دوہرائیں گے، ہماری ذمہ داری ہے کہ اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کریں۔