پاکستان، آسٹریلیا، انگلینڈ تو پہنچ گئے، مگر سیمی فائنل کی آخری ٹیم کون ہوگی؟
تقریباً 2 ہفتے تک دنیائے کرکٹ کو ہیجان میں مبتلا رکھنے کے بعد اب ٹی20 ورلڈ کپ کا سپر 12 مرحلہ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اور سب کی نظریں ناک آؤٹ مرحلے پر ہیں، لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ سیمی فائنل میں کون کس کے مد مقابل ہوگا؟
گوکہ پاکستان اپنے ابتدائی چاروں مقابلے جیت کر سیمی فائنل میں پہنچ چکا ہے اور انگلینڈ اور آسٹریلیا کی بھی سیمی فائنل میں پہنچنے کی تصدیق ہوچکی ہے، لیکن 10 نومبر کو ابوظہبی میں انگلینڈ کا سامنا کون کرے گا اور 11 نومبر کو دبئی میں آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل کون کھیلے گا؟ اس کا فیصلہ گروپ 1 کے ماندہ 3 میچوں کے بعد ہی ہوگا اور یہ بہت ہی اہم میچ ہونے والے ہیں۔
گروپ 1 کے سپر 12 مرحلے کے تمام میچ مکمل ہوچکے ہیں، جس کے ساتھ ہی طے پا چکا ہے کہ یہاں سے انگلینڈ اور آسٹریلیا سیمی فائنل میں ہیں۔ اس کے لیے ہمیں آخری روز دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کا مایوس کن انجام دیکھنا پڑا اور 'ہاٹ فیورٹ' انگلینڈ کی جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست بھی، لیکن یہ کامیابی بھی 'پروٹیز' کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی اور وہ سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔
دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کو اپنے 5 میں سے 4 مقابلوں میں شکست کھا کر باہر ہوتے دیکھنا بہت افسوس ناک تھا۔ آخر کون ہوگا جو کرس گیل، ڈیوین براوو، کیرون پولارڈ اور آندرے رسل کو جاتا دیکھ کر خوش ہوگا؟
'مہان' آسٹریلیا
لیکن کرکٹ بہادروں کا کھیل ہے، جو دلیری کا مظاہرہ کرے گا وہی میدان مارے گا اور اس معاملے میں آسٹریلیا ویسٹ انڈیز سے کافی آگے نظر آیا۔ پہلے مقابلے میں جنوبی افریقہ کو زیر کرنے سے آخر میں ویسٹ انڈیز کے چھکے چھڑانے تک، آسٹریلیا نے ثابت کیا ہے کہ آخر اسے دنیائے کرکٹ کی عظیم ترین ٹیم کیوں سمجھا جاتا ہے۔
ٹورنامنٹ میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا کہ لگتا تھا آسٹریلیا سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوجائے گا۔ 'گروپ آف ڈیتھ' میں جہاں آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش میں سے صرف 2 ٹیمیں اگلے مرحلے تک جاسکتی تھیں، وہاں کوئی بھی نتیجہ آنا ممکن تھا لیکن آسٹریلیا نے نہ صرف بھرپور حوصلے کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے دماغ کو بھی ہر دم حاضر رکھا۔
ایک چھوٹی سی مثال بنگلہ دیش کے خلاف میچ تھا جس میں آسٹریلیا نے پہلے حریف کو صرف 73 رنز پر ڈھیر کیا اور اپنے نیٹ رن ریٹ کو بڑھانے کے لیے طوفانی رفتار سے ہدف کا تعاقب کیا۔ ساتویں اوور کی دوسری گیند پر محض ہدف ہی تک نہیں پہنچا بلکہ اسے اس طرح حاصل کیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ رنز بنا کر اپنے رن ریٹ کو مہمیز دے، اس کے لیے آخری گیند پر چھکا لگا کر 74 کے بجائے 78 رنز بنائے اور غالباً یہی مقابلہ تھا جس نے فیصلہ کردیا تھا کہ سیمی فائنل آسٹریلیا کھیلے گا۔
اپنے آخری مقابلے میں بھی آسٹریلیا نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا اور 158 رنز کا ہدف 17ویں اوور میں حاصل کرکے جنوبی افریقہ کے لیے سخت مشکلات کھڑی کردیں جسے انگلینڈ کے خلاف ایک ہمالیہ سر کرنا تھا۔
جنوبی افریقہ، ایک مرتبہ پھر باہر
جنوبی افریقہ کو اپنے آخری مقابلے میں نہ صرف انگلینڈ کو ہرانا تھا بلکہ اس طرح ہرانا تھا کہ اس کا نیٹ رن ریٹ آسٹریلیا سے آگے نکل جائے اور دیانت داری کی بات کریں تو اس کے لیے جنوبی افریقہ نے سر توڑ کوشش بھی کی۔
بلے بازی کی دعوت ملنے کے بعد ابتدائی نقصان کے باوجود انہوں نے جاندار کارکردگی دکھائی، خاص طور پر ریسی وان ڈیر ڈوسن کی اننگ ایک شاہکار تھی۔ 60 گیندوں پر 6 چھکوں اور 5 چوکوں کی مدد سے ناٹ آؤٹ 94 رنز، وہ بھی ان فارم انگلینڈ کے خلاف، اس سے بڑا کمال اور کیا ہوگا؟ دوسرے اینڈ پر آئیڈن مارکرم نے بھی 25 گیندوں پر ناقابلِ شکست 52 رنز بنائے۔ ان دونوں کی بدولت جنوبی افریقہ صرف 2 وکٹوں پر 189 رنز بنانے میں کامیاب رہا۔
بلاشبہ یہ بڑا اسکور تھا لیکن جنوبی افریقہ کو جس مشکل کا سامنا تھا، وہ تھا اس کا نیٹ رن ریٹ۔ اپنے رن ریٹ کو آسٹریلیا سے بھی بہتر بنانے کے لیے ضروری تھا کہ جنوبی افریقہ انگلینڈ کو محض 131 رنز تک محدود کرے۔ یہ ناممکن نہیں تو انگلینڈ کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے بہت مشکل ضرور تھا۔ 16ویں اوور میں لیام لوِنگسٹن کے مسلسل 3 چھکوں نے اس سنگِ میل کو عبور کرلیا۔ یوں جنوبی افریقہ سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گیا۔
انگلینڈ 5واں میچ بھی جیت کر ناقابلِ شکست حیثیت کے ساتھ سیمی فائنل میں جانا چاہتا تھا لیکن جنوبی افریقہ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ 19ویں اوور میں لوِنگسٹن کی وکٹ گرنے کے بعد آخری اوور میں کاگیسو رباڈا کی ہیٹ ٹرک نے انگلینڈ کا یہ خواب چکنا چور کردیا۔
یہ ٹورنامنٹ میں انگلینڈ کے لیے پہلا دھچکا تھا لیکن جنوبی افریقہ کے لیے بہت ہی دل شکن نتیجہ۔ اس نے سپر 12 میں اپنے گروپ کے 5 میں سے 4 میچ جیتے، لیکن پھر بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا۔ غالباً حاضر دماغی وہ عنصر تھا کہ جس نے آسٹریلیا کو سیمی فائنل تک پہنچایا اور جنوبی افریقہ کو باہر کیا۔ بنگلہ دیش کے خلاف مقابلے ہی کو لے لیں، جہاں صرف 85 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ 14ویں اوور تک چلا گیا۔ یوں آسٹریلیا کو واپسی کی راہ مل گئی کہ وہ اپنے بل بوتے پر سیمی فائنل تک پہنچ سکتا ہے اور جنوبی افریقہ کو نیٹ رن ریٹ کا محتاج کردیا۔
بہرحال، جنوبی افریقہ نے ایک مرتبہ پھر دل ہی جیتے ہیں، ٹرافی جیتنا اب بھی ان کے بس کی بات نہیں لگتی۔
شاباش انگلینڈ!
اس شکست کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو اس مرتبہ بھی انگلینڈ کی کارکردگی دھواں دار رہی ہے، صرف اس ورلڈ کپ میں نہیں بلکہ گزشتہ کئی سالوں سے۔ ورلڈ کپ 2015ء میں جب بنگلہ دیش نے انگلینڈ کو شکست دے کر کوارٹر فائنل کی دوڑ سے باہر کردیا تھا، تب لگتا تھا کہ انگلینڈ کی کرکٹ اب ختم ہوگئی۔ لیکن اس کے بعد سے آج تک کا کوئی آئی سی سی ٹورنامنٹ نہیں آیا جس میں انگلینڈ کم از کم سیمی فائنل تک نہ پہنچا ہو۔
2016ء کا ٹی20 ورلڈ کپ، 2017ء چیمپیئنز ٹرافی، 2019ء کا ورلڈ کپ اور اب 2021ء کا ٹی20 ورلڈ کپ بلکہ 2019ء کے ورلڈ کپ میں تو وہ ورلڈ چیمپیئن بھی بنا۔
الوداع چیمپئن
چیمپیئن کا ذکر نکل پڑا ہے تو کل دنیائے کرکٹ کا چیمپیئن رخصت ہوا، ڈیوین براوو نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ وہ 2012ء اور 2016ء میں ورلڈ کپ جیتنے والے ویسٹ انڈین اسکواڈ کا اہم حصہ تھے۔ دوسری جانب یہ 'یونی ورس باس' کرس گیل کا بھی آخری مقابلہ سمجھا جا رہا تھا لیکن انہوں نے وضاحت کی کہ وہ جمیکا میں الوداعی میچ کھیلنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے الفاظ میں ’میں تو اگلا ورلڈ کپ بھی کھیلنا چاہتا ہوں، لیکن وہ مجھے کھیلنے نہیں دیں گے‘۔
بہرحال، براوو اور گیل کے جانے سے ایک عہد کا اختتام ہوا البتہ ان کی یادیں کرکٹ شائقین کے ذہنوں میں ہمیشہ تازہ رہیں گی۔
بھارت، اب بھی سیمی فائنل کی دوڑ میں، لیکن ۔۔۔
پاکستان، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے بعد سیمی فائنل کی بچ جانے والی واحد نشست کا فیصلہ سپر 12 مرحلے کے آخری دن ہی ہوگا۔
گروپ 2 میں کیونکہ انگلینڈ پہلے نمبر پر آیا ہے اس لیے اس کا مقابلہ گروپ 2 میں دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم سے ہوگا جبکہ آسٹریلیا گروپ 2 کے فاتح سے کھیلے گا۔ اگر پاکستان آخری مقابلے میں اسکاٹ لینڈ کو ہرا دیتا ہے تو وہ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کا حریف ہوگا جبکہ انگلینڈ سے دو، دو ہاتھ کرنے کے لیے اس وقت 3 امیدوار میدان میں ہیں۔ سب سے پہلا تو نیوزی لینڈ ہے، جسے آخری مقابلے میں خطرناک افغانستان کا سامنا کرنا ہے۔
اس مقابلے میں نیوزی لینڈ اور افغانستان دونوں کے لیے شکست کا کوئی سوال نہیں، ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کامیابی نہ صرف نیوزی لینڈ کے لیے سیمی فائنل کی راہ ہموار کرے گی بلکہ افغانستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی مقابلے کی دوڑ سے باہر کردے گی۔
لیکن، اگر افغانستان نے کوئی غیر معمولی کارنامہ سر انجام دے دیا اور نیوزی لینڈ کو شکست دے دی تو یہ نہ صرف اس کے بلکہ بھارت کے امکانات بھی روشن کردے گی کیونکہ اس صورت میں تینوں ٹیموں کے پوائنٹس برابر ہوجانے کا امکان پیدا ہوجائے گا اور یہاں نیٹ رن ریٹ کی بدولت بھارت سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے۔
بھارت کا آخری مقابلہ پیر کو نمیبیا کے ساتھ ہے لیکن فی الحال ان کی تمام تر دعائیں افغانستان کے لیے ہیں کہ وہ ویسی کارکردگی نہ دکھائے جیسی گزشتہ مقابلے میں خود بھارت کے خلاف دکھائی تھی۔
ایک اور پاک-آسٹریلیا مقابلہ؟
ویسے توقعات کے مطابق پاک-آسٹریلیا سیمی فائنل ہوا تو یہ ایک تاریخی مقابلہ اور مرحلہ ہوگا۔ آسٹریلیا نے نہ صرف 2010ء میں بلکہ 2016ء میں بھی پاکستان کو شکست دے کر ٹی20 ورلڈ کپ سے باہر کیا تھا۔ 2010ء میں تو وہ سیمی فائنل تھا جس میں مائیکل ہسی نے آخری اوور میں درکار 16 رنز بنانے کے لیے سعید اجمل کو 4 گیندوں پر 3 چھکے اور ایک چوکا لگا دیا تھا۔
موہالی میں ہونے والے 2016ء کے مقابلے میں 194 رنز کے تعاقب میں پاکستان کی کامیابی کی راہ میں جیمز فالکنر آڑے آگئے تھے، جنہوں نے 5 وکٹیں حاصل کرکے پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کردیا تھا۔
تو کیا ان دونوں ناکامیوں کا بدلہ لینے کا وقت آ رہا ہے؟ یا آسٹریلیا ایک مرتبہ پھر پاکستان کی راہ میں آجائے گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔