ترمیم شدہ قومی احتساب آرڈیننس کو پارلیمنٹ میں بھیجنا چاہیے، اٹارنی جنرل کی وزیر اعظم کو تجویز
اسلام آباد: اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے وزیر اعظم عمران خان کو تجویز دی ہے کہ قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں تیسری ترمیم کو پارلیمنٹ کے ذریعے بہتر کیا جائے کیونکہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے اس کا نفاذ قانون کے تحت پائیدار نہیں ہوگا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک باخبر ذرائع نے بتایا کہ حال ہی میں وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والے اٹارنی جنرل (اے جی پی) نے تجویز پیش کی کہ رواں ہفتے کے اوائل میں تیسری ترمیم کے ذریعے جاری کیے گئے آرڈیننس میں اب بھی بعض خامیاں ہیں جنہیں کسی اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے دور نہیں کیا جا سکتا۔
ذرائع کے مطابق قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کو ہٹانے کا طریقہ کار پر اب بھی تنازع نظر آرہا ہے اس لیے وزیر اعظم کو تجویز دی گئی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اس پر مکمل بحث کرنے اور ترامیم کرنے کی اجازت دی جائے۔
مزید پڑھیں: ایک ماہ سے کم عرصے میں نیب قوانین میں ترامیم کا نیا آرڈیننس جاری
اے جی پی نے وزیر اعظم کے ساتھ اپنی ملاقات میں کہا کہ آرڈیننس اپنی موجودہ شکل میں اعلیٰ عدالتوں کے سامنے چیلنج کیا جاسکتا ہے اور عدالتیں اس کو ایک ’غلط قانون‘ قرار دے سکتی ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت نے قومی احتساب (تیسری ترمیم) آرڈیننس 2021 پیر (یکم نومبر) کو جاری کیا تھا تاکہ صدر کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کا اختیار ختم کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین کو ہٹا سکیں۔
آرڈیننس میں تیسری ترمیم لانے کا فیصلہ گزشتہ بدھ (27 اکتوبر) کو ہونے والے اجلاس کے دوران وزیر اعظم سے منظوری لینے کے بعد کیا گیا۔
اجلاس میں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے شرکت کی، تاہم اے جی پی نے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی۔
ذرائع کے مطابق قومی احتساب آرڈیننس، نیب کے سربراہ کو بیورو کے دائرہ کار کے لیے قواعد وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
موجودہ حالات میں اگر سربراہ نیب کے خلاف غلط کاموں کا کوئی الزام سامنے آتا ہے تو انہیں اپنے آپ کو ہٹانے کے لیے خود ہی قوانین بنانا ہوں گے۔
نیب نے سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں گزشتہ سال 27 اگست کو اپنے قوانین (نیب رولز 2020) سپریم کورٹ کے سامنے رکھے تھے۔
اس کے بعد نیب کے قوانین پاکستان کے گزٹ میں شائع کیے گئے جو اسے قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 18 (بی) کے تحت کسی بھی مشتبہ جرم کا نوٹس لینے کا اختیار دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نئے صدارتی آرڈیننس کے بعد نیب کیسز کی حیثیت غیر یقینی سے دوچار
آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ نیب چیئرمین کا فیصلہ حتمی ہوگا کہ وہ رسمی کارروائیوں کے بعد ریفرنس دائر کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
اس فیصلے پر نیب کی کوئی اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکتی۔
ذرائع نے بتایا کہ بہت سے شرکا نے حیرانی کا اظہار کیا کہ چیئرمین نیب کو سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ کار میں لانے میں کیا حرج ہے کیونکہ دیگر اہم آئینی دفاتر جیسے اعلیٰ عدالتوں کے ججز، آڈیٹر جنرل اور وفاقی محتسب کو سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا آغاز کرکے ہٹایا جاسکتا ہے۔
اس سے قبل وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم نے ڈان کو وضاحت کی تھی کہ موجودہ آرڈیننس کے تحت سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مقرر کردہ معیار نیب کے چیئرمین کو ہٹانے پر بھی لاگو رہے گا تاہم اس کے لیے مناسب فورم سپریم جوڈیشل کونسل نہیں صدر ہوں گے۔