حکومت کی نئی ٹیم کے کالعدم ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات
حکومت نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ ہفتے کے روز دوبارہ مذاکرات شروع کردیے اور اس مرتبہ مذاکراتی ٹیم بنیادی طور پر بریلوی مکتبہ فکر کے سینئر علما پر مشتمل ہے۔
اس ضمن میں تقریباً تمام سینئر ترین اور بااثر رہنماؤں کو راولپنڈی اور اسلام آباد لایا گیا، مفتی منیب الرحمٰن اور کراچی کے صنعتکار عقیل کریم ڈھیڈی کی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں ٹی ایل پی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ مفتی منیب الرحمٰن نے اسلام آباد میں تنظیم کے زیر حراست رہنما سعد رضوی سے بھی ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں: علما کی ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں تعاون کی پیش کش
کالعدم تنظیم کے احتجاجی مارچ کے خلاف تمام تر اقدامات اٹھانے کے باوجود حکومت نے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور تنظیم کے زیر حراست سینئر رہنماؤں کو جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب اسلام آباد پہنچایا گیا۔
اس کے علاوہ کوششیں دوبارہ شروع کرنے کے بعد کابینہ اراکین نے بھی اپنا لہجہ نرم کرلیا جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیراعظم کے مشیر برائے مذہبی ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی کو تنظیم کے خلاف بیانات دینے سے روک دیا گیا۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سعد رضوی اور ٹی ایل پی کی شوریٰ کے تین سینئر ارکان مولانا شفیق امینی، انجینئر حفیظ اللہ اور پیر عنایت الحق کو براہ راست مذاکرات کے لیے لاہور سے اسلام آباد لایا گیا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے ٹی ایل پی کے ایک سینئر رہنما نے کہا کہ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہیں اور ہر کوئی موجودہ صورتحال سے نکلنے کا راستہ چاہتا ہے تاہم کابینہ کے بعض ارکان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ تھا۔
مزید پڑھیں: پیمرا نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی
روپوش ٹی ایل پی عہدیدار نے کہا کہ انہوں نے ہمیں انڈین ایجنٹ کیوں قرار دیا، پوری قوم جاننا چاہتی ہے کہ دشمنوں سے پیسہ کون لے رہا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت سے کہا کہ وہ مذاکراتی ٹیم کو تبدیل کرے جو ملاقات کے بعد ہماری توہین نہ کرے۔
دریں اثنا پریس کو جاری کردہ ایک بیان میں ٹی ایل پی نے ملاقات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی ٹیم کے ساتھ اجلاس راولپنڈی میں ہوا۔
بعدازاں رات گئے جاری کردہ ایک اور پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ٹی ایل پی نے حکومت کو وزیر آباد میں مارچ روکنے سمیت کرائی گئی تمام یقین دہانیوں کی پاسداری کرنے پر اتفاق کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کے احتجاجی شرکا وزیرآباد میں قیادت کی ہدایت کے منتظر
دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور رکن قومی اسمبلی علی محمد خان پر مشتمل نئی حکومتی ٹیم نے ٹی ایل پی رہنماؤں سے ملاقات کی۔
ایک اور پیش رفت میں، 19 سینئر علما کی ٹیم نے وزیراعظم عمران خان سے بنی گالہ میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی، وفد کی قیادت وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کی۔
تاہم سینئر علما نے حافظ طاہر اشرفی کی اجلاس میں موجودگی پر اعتراض کیا جس کے بعد وہ واپس چلے گئے۔
ان کے علاوہ وزیر اطلاعات، جو بنی گالہ جا رہے تھے، انہیں بھی نہ آنے کا کہا گیا کیونکہ وفد نے ان کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا تھا چنانچہ ان کی اعلان کردہ پریس کانفرنس بھی منسوخ کر دی گئی۔
مزید پڑھیں: کالعدم تنظیم سے مذاکرات کیلئے علمائے کرام کی 12رکنی کمیٹی قائم
نتیجتاً اجلاس کے بعد وزیراعظم سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کی گئی آفیشل فوٹیج میں طاہر اشرفی اور فواد چوہدری دونوں نظر نہیں آئے۔
اس سلسلے میں جب فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں اجلاس میں مدعو بھی نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی ڈی کی جانب سے ان کی نیوز کانفرنس کے حوالے سے اعلان غلطی سے جاری کیا گیا کیونکہ دراصل وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی پریس کانفرنس شیڈول تھی لیکن بعد میں وزیر مذہبی امور نے کی۔
دوسری جانب طاہر اشرفی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اور فواد چوہدری اس لیے وہاں نہیں تھے کیونکہ انہیں کسی اور میٹنگ میں جانا تھا۔
وزیر اعظم سے ملاقات کرنے والی ایک شخصیت نے ڈان کو بتایا کہ عمران خان نے مذاکرات کاروں کو صرف ایک پیغام اور ایک مینڈیٹ دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ سعد رضوی کو رہا کیا جائے گا اور بات چیت جاری رہے گی لیکن مذہبی تنظیم لوگوں کو باہر نہ لانے اور معمولات زندگی متاثر نہ کرنے کا وعدہ کرنا چاہیے۔
ملاقات کے بعد وزیر مذہبی امور نے بنی گالہ میں علما کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے بات کی اور اس یقین کا اظہار کیا کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے گا۔