پاکستان

ملک میں وزیراعظم کی جگہ اہم ترین تقرریاں جنات کرتے ہیں، مریم نواز

عمران خان آئینی وزیر اعظم نہیں ہیں، انہوں نے نواز شریف کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا ہے، نائب صدر مسلم لیگ (ن)

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے سول اور ملٹری کے مابین تعلقات اور نئے ڈائریکٹر (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے تقرر میں تاخیر پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اہم تقرریوں پر ملک کو تماشا بنا دیا ہے اور وزیر اعظم کی جگہ اہم ترین تقرریاں جنات کرتے ہیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سچ ایک دن ضرور سامنے آتا ہے، آئین، جو اختیارات ایک منتخب وزیر اعظم کو دیتا ہے اس پر کوئی دو آرا نہیں ہیں لیکن عمران خان آئینی وزیر اعظم نہیں ہیں، انہوں نے نواز شریف کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا ہے۔

مزید پڑھیں: سلیکٹرز آئندہ پاکستان کے ساتھ ایسا کام نہ کرو، مریم نواز

انہوں نے کہا کہ ’جو شخص جادو ٹونے اور چھاڑ پھونک سے حکومتی معاملات چلاتا ہے اور ملک کی اہم ترین تقرریاں، جس کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے براہ راست ہے، جادو ٹونے سے کرتا ہو، وزیر اعظم کی جگہ اہم ترین تقرریاں جنات کرتے ہوں، ان کی ٹائمنگ وہ طے کرتے ہوں تو ایسے حالات میں دنیا کے سامنے تماشہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے‘۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے نام لیے بغیر کہا کہ ’میں سمجھتی ہوں کہ جنات عوام کی فلاح کے لیے استعمال کیوں نہیں ہوتے اور صرف اہم تقرریوں کے وقت ہی کیوں ظاہر ہوتے ہیں‘۔

مریم نواز نے کہا کہ ’جنتر منتر اور جنات کے ذریعے آٹا، چینی اور دیگر اشیا سستی کیوں نہیں کی جاتیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا تماشا بن چکا ہے، آپ ایک شخص کو رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی حکومت چلاتا ہے، وہ آپ کے مخالفین کو اکھاڑ بچھاڑ دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نیب نے مریم نواز کی ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دائر کردی

مریم نواز نے کہا کہ ’کیا آپ قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ اہم تقرریوں کے پیچھے کون سے عوام ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو ووٹ کو عزت دو یاد آگیا ہے، آپ کو نواز شریف بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ آئینی وزیر اعظم تھے۔

نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ میں عمران خان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ان کی سیاسی پہچان کیا ہے؟ عمران کی سیاسی پہچان منتخب حکومت کے خلاف سازش کرنا اور 126 دن کا دھرنا دینا ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ہماری پارٹی عوام کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا چاہتی ہے کہ آئندہ کوئی وزیراعظم، عمران خان کی طرح مہرہ بن کر سامنے نہیں آئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت مخالف سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیلوں پر نیب سے دلائل طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اپیلوں پر درخواست گزار وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر نیب سے دلائل طلب کرلیے۔

سماعت کے دوران کیپٹن (ر) صفدر اور مریم نواز کے وکیل عرفان قادر جبکہ نیب کی جانب سے عثمان غنی اور سردار مظفر عباسی عدالت پیش ہوئے۔

عرفان قادر نے قرآن و سنت کے حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے 30 روز میں کیس مکمل کرنے کی درخواست دی اور اب میرے موکل کی درخواست ضمانت خارج کرنے کے لیے درخواست دائر کردی گئی۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دے کہ اب تو نیب ہر کسی کو گرفتار کرنے چلا ہے اس کے خلاف ثبوت ہو یا نہ ہوں، نیب والے بھی تھانے کی طرح چلتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ضمانت خارج کیس تو اب سامنے نہیں، جب سامنے ہو تو دیکھا جائے گا۔

ایڈووکیٹ عرفان قادر نے درخواست میرٹ پر فیصلہ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت ہماری درخواست پر میرٹ پر فیصلہ کرے، ہم ٹیکنیکلٹی میں نہیں جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نیب نے مریم نواز کی ضمانت منسوخی کیلئے درخواست دائر کردی

انہوں نے ایون فیلڈ ریفرنس میں ملزمان پر چارج شیٹ پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ یہاں سپریم کورٹ، احتساب عدالت، جے آئی ٹی اور نیب سے بہت بڑی غلطی ہوئی، نواز شریف جب سیاست میں آئے اس سے پہلے بھی بہت امیر خاندان تھا۔

عرفان قادر نے کہا کہ نواز شریف یا مریم نواز کا ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں ہیں، اس معاملے کو پبلک آفس ہولڈر کا کیس کس طرح بنا دیا گیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کی ملکیت کا دستاویز کونسا ہے۔

وکیل نے کہا کہ مریم نواز اور نواز شریف کی ملکیت کا کوئی دستاویزی موجود نہیں ہے۔

اس دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ یہ اپارٹمنٹ آف شور کمپنی کے ذریعے خریدے گئے تھے، نیلسن اور نیسکول کے ذریعے یہ اپارٹمنٹس خریدے گئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مرکزی ملزم کے خلاف ملکیت آتی ہے، پھر بنفیشری اونر اور پھر فونٹ آئے گی، ان اپارٹمنٹ کے پرنسپل ڈاکیومنٹس کہاں اور کس کے نام ہیں؟

جس پر وکیل نے کہا کہ ان اپارٹمنٹ کے کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔

عدالت نے نیب کو عرفان قادر کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں دلائل کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 17 نومبر تک ملتوی کردی۔

ایون فیلڈ ریفرنس فیصلہ

خیال رہے کہ 6 جولائی 2018 کو شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو 10 سال، ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 سال جبکہ داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ سزائیں عام انتخابات سے صرف 19 دن قبل سنائی گئی تھیں۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، جہاں 19 ستمبر 2018 کو ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی جانب سے سزا دینے کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

جس کے بعد 22 اکتوبر 2018 کو نیب نے نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایون فیلڈ ریفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائر صفدر کی سزا معطلی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل خارج کردی تھیں۔

یاد رہے کہ 6 اکتوبر 2021 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی ریفرنس کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی درخواست سے اعتراضات ختم کرکے سماعت کے لیے مقرر کردی تھی۔

12 اکتوبر کو نیب نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا یافتہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی ضمانت منسوخی کی درخواست دائر کردی تھی۔

ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے، قانونی تقاضے پورے کیے جائیں گے، فواد چوہدری

فلسطینی حمایت میں لکھاری کا اسرائیلی کمپنی کو کتاب کی اشاعت کی اجازت دینے سے انکار

وزیراعظم کو ملنے والے تحائف، تفصیلات فراہم نہ کرنے پر حکومت کی سرزنش