افغانستان: خواتین امور کی معطل وزارت کی عمارت کے سامنے عملے کا احتجاج
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کی حکومت کے بعد بند کی جانے والی خواتین امور کی وزارت کے سامنے دو درجن خواتین کارکنوں نے احتجاج کیا۔
غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق خواتین عملے کا کہنا تھا کہ وہ وزارت میں کام کے لیے واپسی کی تیاریاں کئی ہفتوں سے کر رہی ہیں لیکن انہیں صرف واپس گھرجانے کو کہا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان: وزارت امورِ خواتین ’نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے‘ میں تبدیل
خواتین امور کی وزارت کے باہر تمام نشانات مٹادیے گئے ہیں اور ان کی جگہ وزارت قومی ورثہ کے حوالے سے چیزیں رکھی گئی ہیں۔
مظاہرے میں شریک ایک خاتون بصیرہ توانا کا کہنا تھا کہ خواتین امور کی وزارت کو بحال ہونا چاہیے، خواتین کو ہٹانا انسانوں کو ہٹانے کے مترادف ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ احتجاج افغانستان میں پرائمری اسکولوں میں لڑکیوں کی واپسی کے بعد سامنے آیا ہے لیکن بڑی کلاسوں کی طالبات پالیسی میں وضاحت نہ ہونے کے باعث تذبذب کا شکار ہیں کہ کب وہ اپنی تعلیم شروع کرپائیں گی۔
ایک اور خاتون ترنم سیدی کا کہنا تھا کہ آپ لڑکیوں کو گھروں میں رکھ کر اور اسکولوں کو جانے کی اجازت نہ دے کر افغانستان کی خواتین کی آواز نہیں دبا سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی آج کی خواتین 26 سال پہلے والی خواتین نہیں ہیں۔
خواتین کا احتجاج 10 منٹ میں ختم ہوا اور ایک شہری کے ساتھ تلخ کلامی کے بعد خواتین کاروں میں بیٹھ کر چلی گئیں جبکہ طالبان کی دو گاڑیاں بھی قریب کھڑی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کا خوف: افغان خواتین فٹبالرز پاکستان پہنچ گئیں
گزشتہ ماہ بھی خواتین کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا جس کو زبردستی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
طالبان عہدیداروں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی روایتی پالیسیوں پر نہیں جائیں گے جس میں خواتین کی تعلیم پر پابندی بھی شامل ہے۔
خواتین گھروں پر رہیں، کابل میونسپلٹی
افغانستان کے دارالحکومت کابل کے عبوری میئر کا کہنا تھا کہ کابل سٹی گورنمنٹ کے خواتین عملے کو گھر میں رہنا کو کہا گیا ہے، صرف وہ کام کرنے کی اجازت ہوگی جو مرد نہیں کرسکتے ہیں۔
طالبان کی جانب سے کابل کا میئر مقرر کیے جانے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں میئر حمداللہ نامونی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ طالبان کے آنے سے پہلے تقریباً ایک تہائی یعنی 3 ہزار خواتین عملے کا حصہ تھیں اور وہ تمام شعبوں میں کام کرتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ خواتین عملے کو زیرالتوا فیصلے تک گھروں میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے، خواتین کے لیے استثنیٰ دیا گیا ہے کہ وہ ڈیزائن، انجینئرنگ کے شبے اور خواتین کے ٹوائلٹ کے گارڈ سمیت دیگر شعبوں میں ان کی جگہ مردوں کو نہیں رکھا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چند ایسے شعبے ہیں جہاں مردوں کا کام نہیں ہے تو ہم اپنے خواتین عملے کو وہ کمی پورا کرنے کے لیے کہیں گے، اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان بھر میں سرکاری اور نجی دونوں سطح پر خواتین کو گھروں میں رہنے کو کہا گیا ہے تاہم طالبان نے اب تک باقاعدہ پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ‘طالبان خواتین کے کام کرنے کےخلاف نہیں، چند سیکیورٹی خدشات ہیں’
کابل میں میئر کی جانب سے پریس کانفرنس کی جارہی تھی اور اسی دوران دوسری جانب تقریباً 30 خواتین کا ایک گروپ بھی پریس کانفرنس کر رہا تھا، جہاں انسانی حقوق کی کارکن اور سرکاری ملازمہ مارزیہ احمدی کا کہنا تھا کہ وہ طالبان سے مطالبہ کریں گی کہ وہ خواتین کے لیے تمام شعبے کھول دیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا حق ہے، ہمیں ان سے بات کرنا چاہتے ہیں، ہم انہیں کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بھی ان کی طرح کے حقوق ہیں۔
پریس کانفرنس میں شریک اکثر خواتین کا کہنا تھا کہ اگر انہیں باہر جانے کا موقع ملا تو وہ ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گی۔