روس کا طالبان کی ’عبوری حکومت ‘ پر تحفظات کا اظہار
روس نے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کی تشکیل پر اپنے تحفظات کا اظہار کردیا جبکہ چین کی جانب سے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے ’کابل کے ساتھ تعاون‘ کو تیز کرنے پر زور دیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں منعقد 2 روزہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے خطاب میں افغانستان کے حوالے سے کہا کہ طالبان افغانستان کے مکمل مالک بن چکے ہیں اور عبوری حکومت بھی بنا لی ہے جبکہ اس نے افغانستان کے مستقبل کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان کے ساتھ ‘دوستانہ تعلقات’ کیلئے تیار ہیں، چین
انہوں نے مزید کہا کہ اس عبوری حکومت کو حقیقی طور پر نمائندہ یا جامع حکومت نہیں کہا جا سکتا، ہم یہاں دوسرے نسلی گروہوں کے نمائندوں کو نہیں دیکھتے لیکن ان کے ساتھ بھی کام کرنا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں چین کے صدر شی جن پنگ نے ایس سی او کے رکن ممالک کو مخاطب کرکے کہا کہ وہ کابل کے ساتھ تعاون کو تیز کریں، ایس سی او کو ’افغانستان رابطہ گروپ‘ جیسے پلیٹ فارمز کا بھرپور استعمال کرنا اور افغانستان میں ہموار منتقلی کو آسان بنانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں افغانستان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایک وسیع البنیاد اور جامع سیاسی فریم ورک بنائے، اعتدال پسند ملکی اور خارجہ پالیسیاں اپنائے۔
شی جن پنگ نے مزید کہا کہ افغانستان کی حوصلہ افزائی اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ ہر طرح کی دہشت گردی کا مقابلہ کرے، اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ہم آہنگی سے تعلقات قائم کرے اور امن کی راہ پر گامزن ہو۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان کا 'افغانستان اسلامی امارات' کے قیام کا اعلان
اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے تاکہ وہ افغانستان میں ایک ’جامع حکومت‘ تشکیل دے کر اپنا وعدہ پورا کریں جس میں وہاں رہنے والی تمام نسلوں کی نمائندگی شامل ہو۔
وزیر اعظم کے مطابق طالبان کو جامع حکومت کے لیے آمادہ کرنے کا یہ اقدام افغانستان میں امن اور استحکام کو یقینی بنائے گا جو نہ صرف جنگ زدہ ملک بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے۔
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے سے واپسی پر، جہاں انہوں نے دو روزہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی، وزیر اعظم خان نے کہا کہ انہوں نے افغانستان کے پڑوسی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بعد طالبان سے بات چیت شروع کی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس اور تقریب کے موقع پر شریک رہنماؤں کے مابین دوطرفہ ملاقاتوں میں افغانستان گفت و شنید کا محور رہا۔
مزید پڑھیں: مسئلہ افغانستان: بورس جانسن کو برطانوی ساکھ متاثر کرنے کے الزامات کا سامنا
تقریباً تمام شریک رہنماؤں نے ایک ایسی حکومت کی ضرورت پر زور دیا جو افغانستان میں مختلف نسلی گروہوں، اقلیتوں اور سیاسی رنگوں کی نمائندگی کرتی ہو لیکن ساتھ ہی کابل کو ترک کرنے کے خلاف بھی خبردار کیا تھا جس کا انہیں خدشہ تھا کہ یہ پورے خطے کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
طالبان کی جانب سے اعلان کردہ عبوری حکومت کو بین الاقوامی برادری ’جامع‘ نہیں دیکھ رہی کیونکہ عبوری حکومت میں پرانے جنگجوؤں کی بڑی تعداد شامل ہے جن میں سے بیشتر پشتون ہیں اور اس میں خواتین اور اقلیتی گروپ کی نمائندگی نہیں ہے۔
دنیا افغانستان میں ایک جامع حکومت کے اپنے مطالبے پر قائم ہے اور اس وجہ سے نئی انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہے۔