دنیا

افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی عہدیداروں نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا دیا

پینٹاگون کے مایوس عہدیدار محکمہ سیکیورٹی جبکہ سیکیورٹی ادارے وائٹ ہاؤس کو سست فیصلے کرنے پر تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں، رپورٹ

کابل سے انخلا کے ایک ہفتے کے دوران امریکی فوج حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے ایک موقع پر تمام پروازوں کو 7 گھنٹے کے لیے بند کرنے کے لیے مجبور ہوگئی تھی کیونکہ انخلا کے منتظر افراد کو وہاں سے جانے کے لیے کہیں بھی ٹھکانہ نہیں مل رہا تھا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کئی مہینوں سے فوجی حکام نے امریکی محکمہ خارجہ پر زور دیا تھا کہ وہ دوسرے ممالک کو قائل کریں کہ وہ ان افغانوں کو اپنے ملک میں آنے دیں جو خطرے میں ہیں۔

وہ دیگر ممالک کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاہدے کرنے میں ناکام رہے، جس سے امریکی حکام انخلا کی جگہ تلاش کرنے کے لیے جلد بازی پر مجبور ہوگئے۔

جو بائیڈن کی انتظامیہ اس حوالے سے گزشتہ چند مہینوں میں ناکام رہی ہے جس کا اختتام عجلت میں کی گئی ایئرلفٹ سے ہوا، جس کی وجہ سے ہزاروں امریکی اتحادی افغانوں کو پیچھے چھوڑ دیا گیا اور کابل کے ایئرپورٹ کے باہر ایک خودکش بم دھماکے کے نتیجے میں 13 امریکی فوجی اور سیکڑوں افغان شہری ہلاک ہوگئے۔

مزید پڑھیں: طالبان رہنما کا انٹرویو کرنے والی خاتون اینکر افغانستان چھوڑ گئیں

امریکا کی طویل ترین جنگ کے خاتمے نے وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن کے 7 ماہ کے سب سے بڑے بحران کو جنم دیا ہے، انتظامیہ کے اندر ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور سوالات جنم لے رہے ہیں کہ اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔

غلطیوں کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے تاریخ کے سب سے بڑے ایئر لفٹ میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد امریکیوں، افغانوں اور دیگر قومیت کے لوگوں کو عسکریت پسند داعش گروپ کے حملوں کے خطرے کے درمیان سے نکالا ہے۔

امریکی افواج کا آخری دستہ 30 اگست 2021 کو افغانستان سے نکلا تھا۔

امریکا کے موجودہ اور سابق عہدیداروں اور قانون سازوں نے کہا کہ جو بائیڈن امریکی انخلا سے نمٹنے پر اعلیٰ مشیروں کو برطرف نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

اسی دوران ڈیموکریٹک صدر نے اپنی انتظامیہ کے اقدامات کا بھرپور دفاع کیا ہے۔

پینٹاگون کے مایوس اور ناراض عہدیداروں نے نجی طور پر ریاستی اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکموں کو وائٹ ہاؤس کے سست فیصلے کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اٹلانٹک کونسل تھنک ٹینک کے سابق سینئر امریکی سفارت کار ڈین فرائیڈ نے کہا کہ 'الزام تراشی کرنا واشنگٹن کا ایک پرانا کھیل ہے، اس معاملے میں الزامات ہر جانب لگائے جاسکتے ہیں اور ممکنہ طور پر سب ہی ٹھیک ہوں گے'۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ناکامی میں اجتماعی کردار ہے۔

معاملے سے واقف ایک ذرائع نے انخلا کی منصوبہ بندی کا دفاع کیا اور کہا کہ محکمہ خارجہ اس کوشش میں فوری ضرورت نہ ہونے کے بارے میں محکمہ دفاع کے کسی بھی خدشات سے لاعلم تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کے سپریم لیڈر کہاں ہیں؟

وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے رائٹرز کو بتایا کہ برطرفی کے بارے میں بات نہیں کی گئی ہے تاہم انتظامیہ توقع کرتی ہے کہ کانگریس جارحانہ طور پر افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کی تحقیقات کرے گی۔

جو بائیڈن انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ کسی بھی برطرفی کو ایک خفیہ اعتراف کے طور پر دیکھا جائے گا کہ صدر نے جنوبی ایشیائی ملک سے غیر مشروط طور پر فوجیوں کو ہٹانے میں غلطی کی تھی۔

جو بائیڈن نے منگل کے روز ایک تقریر میں اپنے فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کیا اور انخلا کے منصوبے کے ساتھ کھڑے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کوئی کہتا ہے کہ ہمیں بڑے پیمانے پر انخلا شروع کرنا چاہیے تھا اور کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا اور کیا یہ زیادہ منظم طریقے سے کیا جاسکتا تھا، میں احتراماً ان سے متفق نہیں ہوں'۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ وہ بالآخر انخلا کے ذمہ دار ہیں۔

کس کو قصور وار ٹھہرایا جائے؟

افغانستان میں گزشتہ مہینے انٹیلی جنس اور فوج سے لے کر سفارتی اور امیگریشن محاذوں تک ناکامیوں کا ایک سلسلہ جاری رہا جس میں طالبان کی پیش قدمی کی رفتار اور افغان فوج کے خاتمے کا اندازہ لگانے میں ناکامی بھی دیکھی گئی۔

ایک امریکی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ 'کسی نہ کسی طرح ہر کوئی قصور وار ہے'۔

چند ریپبلیکنز نے جیک سلیوان اور سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹونی بلنکن کی طرف انگلیاں اٹھائیں ہیں اور ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔

ریپبلکنز نے جو بائیڈن سے افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد کو برطرف کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جنہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے طالبان کے ساتھ 2020 کے معاہدے پر بات چیت کی تھی جس سے انخلا کا مرحلہ طے ہوا تھا۔

تاہم جب ایوان کے اقلیتوں کے رہنما کیون مک کارتھی سے پوچھا گیا کہ کیا ان کے خیال میں جو بائیڈن یا انٹونی بلنکن کا مواخذہ ہونا چاہیے تو کیلیفورنیا کے ریپبلکن نے جواب دیا 'نہیں'۔

مزید پڑھیں: افغانوں سے لاتعلقی، خطے میں عالمی دہشت گردوں کیلئے جگہ ہموار کرسکتی ہے، شاہ محمود قریشی

ان کا کہنا تھا کہ ان کی توجہ امریکیوں کو افغانستان سے نکالنے پر ہے۔

دفاعی عہدیداروں نے رائٹرز کو بتایا کہ محکمہ خارجہ افغانستان میں زمینی حقیقت سے بے نیاز دکھائی دیتا ہے اور انہیں افغان حکومت پر بہت زیادہ اعتماد ہے۔

جون میں کانگریس کی سماعت کے دوران انٹونی بلنکن سے پوچھا گیا کہ کیا انتظامیہ خطرے سے دوچار افغانوں کو ملک سے باہر نکالنے پر غور کر رہی ہے تو انہوں نے کہا تھا کہ 'اگر سیکیورٹی میں کوئی خاص خرابی ہو جو ہو سکتی ہے، ہم نے اس سے پہلے اس پر تبادلہ خیال کیا، مجھے نہیں لگتا کہ کچھ ہونے والا ہے'۔

طالبان نے 13 اگست کو افغانستان کے 2 بڑے شہروں قندھار اور ہرات پر قبضہ کر لیا تھا اور دو دن بعد دارالحکومت کابل پر قابض ہوگئے تھے۔

طالبان رہنما کا انٹرویو کرنے والی خاتون اینکر افغانستان چھوڑ گئیں

پاکستان میں سام سنگ گلیکسی اے سیریز کے مختلف فونز کی قیمتوں میں کمی

تین معذور پاکستانی خواتین کی تن تنہا اہرام مصر تک پہنچنے کی داستان