معروف ماہر تعلیم روبینہ سہگل انتقال کرگئیں
معروف ماہر تعلیم، دانشور، فیمنسٹ اور انسانی حقوق کی رہنما روبینہ سہگل لاہور میں انتقال کرگئیں۔
ڈان کو ان کی بھانجی نداعثمان چوہدری نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ روبینہ سہگل کورونا وائرس کا شکار ہوئی تھیں اور گزشتہ 10 روز سے زیر علاج تھیں۔
ندا چوہدری نے سماجی رابطےکی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ ‘انتہائی دکھ اور غم کے ساتھ آگاہ کر رہی ہوں کہ ہماری نہایت عزیز خالہ انتقال کر گئی ہیں، ان کے لیے دعا کیجیے گا’۔
روبینہ سہگل کے انتقال کی خبر ملتے ہی سیاست دانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے تعزیت کی گئی اور انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ روبینہ سہگل کے انتقال کی خبر سن کر میں بہت غمزدہ ہوں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بیان میں کہا کہ روبینہ سہگل کے ‘صنف، قوم پرستی، انسانی حقوق اور تعلیم پر کام نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم کی تین نسلوں کو سیراب کیا’۔
ویمنز ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) نے بھی ان کے انتقال پر اظہار افسوس کیا، جس کی روبینہ سہگل سینئر رکن تھیں۔
ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ‘انہوں نے ہم سب پر اثرات مرتب کیے ہیں اور ان کی جدوجہد کو جاری رکھا جائے گا’۔
عورت مارچ لاہور کی ٹیم نے کہا کہ روبینہ سہگل ایک ‘دیو قامت فیمنسٹ’ تھیں، ‘ان کی پاکستان اور جنوبی ایشیا کی خواتین کی تحریک کے لیے خدمات اور فکر بے مثال ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہم ہرسال ہمارے مارچ میں ان کی شرکت کو یاد رکھیں گے’۔
روبینہ سہگل کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کالم نگار ندیم فاروق پراچہ نے انہیں ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا۔
ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ ‘ایک بہترین دانش ور، پاکستان اور بھارت کی نصاب میں مخصوص نظریات کے اثرات کو کھول کر بیان کرنے والی اولین ماہرین تعلیم میں سے ایک تھیں’۔
صحافی منیزے جہانگیر نے کہا کہ ‘انسانی حقوق کی دنیا ایک عظیم فائٹر سے محروم ہوگئی ہے’۔
ماہر تعلیم اور کالم نگار عمیر جاوید نے لکھا کہ سہگل ایک بے مثال مصنفہ تھیں، پاکستان کے تعلیمی میدان، قوم پرستی، ثقافت پر بہترین کام کیا اور صنفی حقوق کی انتھک کارکن تھیں۔
عمار راشد نے روبینہ سہگل کو پاکستان میں خواتین کے حقوق کی تحریک کی علمبردار قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دانش وروں کی ایک نسل اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ریاست، صنف، قوم پرستی، فیمنسٹ اور ترقی پسند تحریکوں کے درمیان رشتے کو سمجھنے میں مدد دی۔
عمار علی جان نے کہا کہ ‘ڈاکٹر روبینہ سہگل بہترین اور نرم دل لوگوں میں سے ایک تھیں جن سے میں مل چکا ہوں، تحریک کے لیے ایک بڑا نقصان ہے’۔
خیال رہے کہ روبینہ سہگل نے ڈیولپمنٹ سائیکالوجی میں کولمبیا یونیورسٹی سے 1982 میں ایم اے کیا تھا اور تعلیم اور ڈیولپمنٹ پر پی ایچ ڈی 1989 میں یونیورسٹی آف روچیسٹر سے کیا تھا۔
انہوں نے اپنے کیریئر میں اردو اور انگریزی میں کئی تحقیق پرچے لکھے اور دای پاکستان پروجیکٹ: اے فیمنسٹ پراسپیکٹیو آن نیشن اینڈ آئیڈنٹیٹی اینڈ کنٹراڈکشنز اینڈ امبگویٹیز آف فیمیزم ان پاکستان سمیت کئی کتابیں تحریر اور ایڈیٹ کیں۔