دنیا

ایئرپورٹ کا انتظام سنبھالنے کی امید چھوڑ کر ترک فوج کا بھی کابل سے انخلا

ترک حکومت کئی ماہ سے یہ کہہ رہی تھی کہ اگر درخواست کی گئی تو ایئرپورٹ پر موجودگی برقرار رکھ سکتی ہے۔

انقرہ: ترکی نے کہا ہے کہ اس نے افغانستان سے اپنے فوجیوں کو نکالنے کا عمل شروع کردیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کی حفاظت کا منصوبہ ترک کردیا گیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ترک عہدیداروں نے بتایا کہ طالبان نے ترکی سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعدکابل ایئرپورٹ کے انتظامات چلانے میں تکنیکی مدد کرنے کا کہا تھا، لیکن ساتھ ہی ترکی پر اپنی فوجیں بھی واپس بلانے کے لیے اصرار کیا تھا۔

اس سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کئی ماہ سے یہ کہہ رہی تھی کہ اگر درخواست کی گئی تو ایئرپورٹ پر موجودگی برقرار رکھ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان کا ترکی کو افغانستان میں فوج رکھنے پر انتباہ

چنانچہ جب طالبان نے کنٹرول سنبھالا اس کے بعد بھی ترکی نے ایئرپورٹ پر تکنیکی اور سیکیورٹی معاونت فراہم کرنے کی پیشکش کی تھی۔

منگل کے روز امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کے بعد انقرہ، کابل میں قدم جمانے کی امید کر رہا تھا لیکن طالبان کے تیزی سے کابل پر قبضے کے بعد وہ منصوبے انتشار کا شکار ہوگئے اور امریکا کے ساتھ اس کے ہنگامہ خیز تعلقات میں فائدہ اٹھانے کا ایک ایم موقع ختم ہوگیا۔

ایک بیان میں ترک وزارت دفاع نے کہا کہ ’ترک مسلح افواج اس فخر کے ساتھ اپنی سرزمین پر واپس آرہی ہیں کہ جس ذمہ داری کے لیے ان پر بھروسہ کیا گیا وہ انہوں نے کامیابی سے نبھائی‘۔

ترکی کے 500 سے زائد غیر جنگی فوجی افغانستان میں تعینات تھے جو کہ جنگ زدہ ملک میں نیٹو کے مشن کا حصہ تھے۔

مزید پڑھیں: ترکی افغان امن عمل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہے، رجب اردوان

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ انقرہ، طالبان رہنماؤں کے ساتھ رابطے کے راستے کھلے رکھ کر اب بھی افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’افغانستان کا استحکام اہم ہے‘۔

ترک وزارت دفاع نے بھی کابل میں سیکیورٹی میں کردار ادا کرنے کا آپشن رکھ کر کہا کہ ’ترکی اس مقصد کے لیے افغانستان میں تمام فریقین کے ساتھ قریبی بات چیت جاری رکھے گا‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ترکی اس وقت تک افغان عوام کے ساتھ رہے گا جب تک وہ چاہیں گے، ساتھ ہی ذکر کیا گیا کہ اس کے فوجی گزشتہ 6 برسوں سے ایئرپورٹ پر تعینات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ترک صدر کا کابل ایئرپورٹ مشن کی حمایت کیلئے امریکی امداد کی فراہمی کا مطالبہ

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے مشروط درخواست نے انقرہ کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا تھا کہ کیا یہ خطرناک ذمہ داری قبول کی جائے یا نہیں۔

ایک سینیئر ترک عہدیدار نے کہا کہ ’طالبان نے کابل ایئرپورٹ چلانے کے لیے تکینیکی معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی تھی تاہم طالبان کی جانب سے تمام ترک فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کسی ممکنہ مشن کو پیچیدہ بنا دے گا۔

شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست پر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’ ترک مسلح افواج کی موجودگی کے بغیر ورکرز کی سیکیورٹی یقینی بنانا ایک خطرناک کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر طالبان کے ساتھ بات چیت جاری تھی کہ اس دوران فوجوں کی واپسی کی تیاریاں مکمل ہوگئیں۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ اگر فوجی سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے موجود نہ ہوں تو کیا ترکی تکنیکی معاونت فراہم کرنے پر رضامند ہوگا۔

سسٹم میں بہاؤ کم ہونے کی وجہ سے سندھ کے تمام بیراجوں میں پانی کی قلت مزید بڑھ گئی

2023 تک برآمدات ریکارڈ سطح تک پہنچ جائیں گی، عبدالرزاق داؤد

کینسر پر تحقیق کے روایتی طریقوں کو بدلنے کا وقت آگیا ہے