ایک فضائی میزبان کی آپ بیتی: میری پہلی بین الاقوامی اُڑان اور اوسلو کی سیر
اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے، رات کا وقت تھا اور نوکری کرتے 6 مہینے پورے ہوچکے تھے۔ میں نہایت غیر انسانی اوقات پر مشتمل اسٹینڈ بائے جو کہ رات 9 سے صبح 5 بجے تک کا تھا، گزار رہا تھا۔ رات کے ڈیڑھ بج رہے تھے اور غنودگی کا وہ عالم تھا جو کسی بھی محبِ وطن فلم میں حملے والی رات سرحد پر پہرہ دیتے دشمن ملک کے فوجیوں کا ہوتا ہے۔
نیند کا جھونکا آتا، آنکھ کھلتی تو پتا چلتا کہ ابھی 10 منٹ ہی گزرے ہیں۔ فون دیکھتا کوئی کال تو نہیں آئی، شکر کرتا اور پھر آنکھیں موند کر جاگنے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے سوجاتا۔ خواب بھی ایسے آتے کہ گاڑی آگئی ہے اور میں سوتا رہ گیا ہوں، یا فلائٹ کو اپنے سامنے اُڑان بھرتے دیکھ رہا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اس میں تو مجھے جانا تھا۔ اسی دوران واقعی فون بج اٹھا۔
دوسری طرف ایک خاتون کی آواز تھی جو کہہ رہی تھیں 'خاور اوسلو جانا ہے'۔ آواز میں سوالیہ پن نہیں تھا اور میں بھی نیند میں تھا تو پوچھ بیٹھا کہ کسے اوسلو جانا ہے؟ کہنے لگیں 'تمہیں جانا ہے'۔ میں بولا میرا تو اسٹینڈ بائے چل رہا ہے۔ کہنے لگیں، 'ہاں تو تمہیں بھیج رہے ہیں اوسلو فلائٹ پر دوپہر میں'۔ میری نیند ایک دم اُڑ گئی کہ اوسلو تو بین الاقوامی پرواز ہے اور میں غریب تو ابھی اندرونِ ملک پروازوں پر دھکے کھا رہا ہوں۔ باہر کے ملک صرف ایک بار گیا تھا، وہ بھی مکہ اور مدینہ، جب میں 4 سال کا تھا۔
فٹافٹ اُٹھ کر سامان باندھا۔ سردیوں کے دن تھے اور میں گرم علاقے کا رہنے والا اس لیے زیادہ سامان باندھ لیا۔ یہ گرم علاقے کا حوالہ میں نے اس لیے دیا ہے کہ کہیں آپ یہ نہ سمجھیں کہ میرا تعلق اس مخصوص طبقے سے ہے جس کو سردی زیادہ لگتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھے سردی زیادہ لگتی ہے۔ اب نیند بالکل اُڑ چکی تھی اور حالت اوپر والی فلم میں کام کرتے کسی محبِ وطن مجاہد جیسی ہوگئی تھی۔
دوپہر میں بریفنگ روم پہنچا تو معلوم ہوا کہ بوجوہ عملے کی کمی، یہ پرواز میرے حصے میں آئی ہے۔ چند بنیادی سوال جواب کے بعد ہم جہاز کی طرف روانہ ہوئے۔ اندرونِ ملک پروازیں زیادہ تر ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کی ہوتی تھیں۔ جب پرواز کا وقت 7 گھنٹے کا اعلان ہوا تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ استاد یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔ یہ 7 گھنٹے کیسے گزارے جائیں گے۔ عملے کو ٹریننگ کے بعد کچھ عرصے تک اندرونِ ملک پروازیں اس لیے کروائی جاتی ہیں تاکہ ان کے کام کرنے کی رفتار بڑھے۔ اس پرواز پر صرف میں ایک جونیئر تھا۔ باقی سب پہلے بین الاقوامی پروازیں کرچکے تھے۔
پرواز شروع ہوئی تو ٹیک آف کے بعد جہاز کے سیدھا ہوتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوا اور جلدی جلدی سروس کی تیاری کرنے لگا تو میرے تجربہ کار ساتھیوں نے مجھے یہ کہہ کر واپس بٹھا دیا کہ ابھی بہت وقت ہے 7 گھنٹے اتنی جلدی نہیں گزرنے والے۔ چنانچہ میں نے اپنے کام کی رفتار کو آہستہ کیا۔ اندرونِ ملک پروازوں میں وقت کی کمی کے پیشِ نظر مسافر زیادہ ریلیکس نہیں کر پاتے جب کہ پہلی مرتبہ بین الاقوامی پرواز کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں نے جوتے اتار دیے ہیں اور کچھ لوگ خالی نشستیں دیکھ کر ان پر لیٹ گئے ہیں۔
سروس ختم کرکے میں بیٹھا ہی تھا کے گیلی کے ساتھ والے ٹوائلٹ سے جو بہت دیر سے بند تھا، ایک 'فارغ البال' صاحب غالباً 'فارغ البول' ہوکر باہر تشریف لائے۔ ان کے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔ وہ صرف موزے پہنے ہوئے تھے۔ شاید جہاز کو وہ اپنے گھر کے وال ٹو وال کارپٹ کمرے کی طرح سمجھ رہے تھے۔ لیکن ٹوائلٹ میں ننگے پاؤں کون جاتا ہے؟ میں نے سوچا کہ ان کو بتاؤں کہ جہاز کے ٹوائلٹ میں فرش پر موجود پانی ہمیشہ 'پانی' نہیں ہوتا لیکن میں نے ایک دوسرے صاحب کو 28ویں بار پیپسی کا گلاس دینے جانا تھا لہٰذا میں ان کو اس پانی کی تفصیلات بتانا بھول گیا۔ لینڈنگ کے وقت برف سے ڈھکے ہوئے اوسلو کو دیکھ کر میں نے اندر ہی اندر ایک جھرجھری لی اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو یخ بستہ موسم کے لیے تیار کیا۔
اوسلو بہت ہی خوبصورت شہر ہے۔ ہمارا ہوٹل ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ میں تھا جس میں کمرے کے ساتھ کچن کی سہولت بھی موجود تھی۔ ہوٹل سے نکلتے ہی ذرا دُور اوسلو کا شاہی محل موجود تھا جس کی تعمیر 1849ء میں مکمل ہوئی۔ اس سے آگے چلیں تو ایکرشوز کا قلعہ ہے جس کی تعمیر 1290ء میں ہوئی۔ قلعے کی پچھلی طرف اوسلو سٹی ہال کی عمارت ہے جس میں نوبیل انعام تقسیم کرنے کی تقاریب بھی منعقد کی جا چکی ہیں۔
شام ہوئی تو ایک سینئر لڑکے کا فون آیا کہ چلو خاور اوسلو گھومنے چلتے ہیں۔ میں نے کہا بھائی صبح سے پورا شہر گھوم ہی رہا ہوں۔ کہنے لگے میرا ایک دوست آ رہا ہے اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ میں نے سردی کا توڑ پوچھا تو کہنے لگے کافی پیتے رہو سردی نہیں لگے گی۔ ان کے دوست تشریف لائے تو ہلکے کپڑوں میں تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ بھی کافی پیتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو سردی نہیں لگتی۔ کہنے لگے کہ یہ ایک مرتبہ ہی 'کافی' پی لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو سردی نہیں لگتی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے وہ دوست ہمیں اوسلو کے مقاماتِ غیر مقدسہ کی رنگینیاں دکھانے کو تشریف لائے تھے۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد ایک اور سینئر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کیا دیکھا اوسلو میں؟ میں نے تفصیلات بتائیں تو حیران ہوکر کہنے لگے کہ ابھی تک تم نے فروگنر پارک نہیں دیکھا۔ میں سمجھا کوئی بہت اہم تاریخی مقام میرے دیکھنے سے رہ گیا ہے۔ میں نے ان سے راستہ پوچھا اور نقشہ پکڑ کر نکل کھڑا ہوا۔
چونکہ مجھے تاریخی مقامات دیکھنے کا بہت شوق ہے تو میں سردی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آخرکار فروگنر پارک پہنچ گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عریاں مجسموں کی ایک کائنات ہے۔ گستاوو ویجیلینڈ نامی مجسمہ ساز کے 200 'ننگ پاروں' پر مشتمل باغ میں کوئی اہم تاریخی مقام نہ پاکر واپس ہوٹل آگیا۔ پتا چلا مجھے سینئرز نے پرینک کیا تھا۔ اس وقت جلدی میں گوگل کرنا یاد نہیں رہا ورنہ دیکھ کر جاتا کہ کہاں جا رہا ہوں۔
کافی سال بعد اوسلو کی ایک اور پرواز پر سردیوں کے موسم میں ہی جانا ہوا تو لتوان جھیل کا چکر لگا۔ یہ سردیوں میں اس حد تک جم جاتی ہے کہ اس کے اوپر آپ اسکیٹنگ بھی کرسکتے ہیں۔ شوق کے مارے جھیل منجمد کا چکر میں نے بھی لگایا لیکن بعد میں تمام اعضائے جسمانی ایسے جمے کہ ہوٹل پہنچنا عذاب ہوگیا۔
مرکزی ریلوے اسٹیشن دیکھنے کے لیے پہنچا تو وہاں ایک شیر کا بہت بڑا مجسمہ رکھا ہوا تھا۔ سارے اس کے گرد کھڑے ہوکر تصویریں بنوا رہے تھے۔ میں نے سوچا یقیناً کوئی مقدس شیر ہے چنانچہ میں نے بھی اس کے پاس کھڑے ہوکر تصویر بنوائی۔ اسٹیشن سے ذرا آگے پہنچے تو ایک بہت بڑی سفید سنگِ مرمر سے بنی عمارت سامنے نظر آئی۔ پتا چلا کہ یہ اوسلو اوپرا ہاؤس کی عمارت ہے۔
پشاور کے ایک دوست نے اپنے چچا رضا صاحب کے لیے کچھ سامان بھیجا تھا۔ وہ دینے کے لیے میں ان کے ریسٹورینٹ پر پہنچا۔ سلام دعا کے بعد ان سے بات چیت شروع ہوئی تو میں نے پشاور کا حوالہ دیا کہ میرا ننھیال وہاں ہے۔ باتوں باتوں میں پتا چلا کہ وہ تو میرے ماموں کے بچپن کے دوست ہیں۔ بس اسی وقت ماموں کو پشاور فون ملایا گیا اور دنیا کتنی چھوٹی ہے اس پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ وہ دن رضا ماموں کے ساتھ گزرا۔
واپسی کی پرواز پر مجھ سے ایک سینئر نے پوچھا کہ کل سارا دن کہاں گھومتے رہے تو میں نے ان کو بتایا کہ میرے ماموں یہاں ہوتے ہیں۔ ان کی طرف گیا تھا۔ انہوں نے میری طرف ایک نگاہِ غلط انداز سے دیکھا کہ جیسے یہ سوچ رہے ہوں کہ پتا نہیں یہ مجھے ماموں بنا رہا ہے یا اس شخص کو ماموں بنا آیا ہے جس کا ذکر کر رہا ہے۔
خاور جمال 15 سال فضائی میزبانی سے منسلک رہنے کے بعد ایک اردو سوانح ‘ہوائی روزی’ کے مصنف ہیں۔ اب زمین پر اوقات سوسائٹی میں فکشن کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہترین انگریزی فلموں، سیزن اور کتابوں کا نشہ کرتے ہیں۔
انہیں فیس بُک پر فالو کریں: khawarjamal. ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔