سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بحال ہونے والے 72 اداروں کے ملازمین سے متعلق تفصیلی ٖفیصلہ جاری کرتے ہوئے ’’برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ‘‘ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق سپریم کورٹ سے جاری تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بنایا جانے والا ایکٹ 2010 ایک خاص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھا اور 2010 ایکٹ کے ذریعے ریگولر ملازمین کی حق تلفی کی گئی لہٰذا برطرف ملازمین بحالی ایکٹ 2010 کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا 113 ملازمین کی بحالی کا حکم
عدالت عظمی نے فیصلے میں قرار دیا کہ برطرف ملازمین بحالی ایکٹ 2010 سے فائدہ حاصل کرنے والے ملازمین اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے مذکورہ برطرف ملازمین کی بحالی کے بعد یکمشت ادائیگیاں واپس لینے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ بحالی ایکٹ 2010 کے ذریعے ترقی پانے والے ملازمین کو عہدوں پر کام کے باعث ملنے والے فوائد واپس نہ لیے جائیں۔
جسٹس مشیر عالم کی جانب سے تحریر کیے گئے 42 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ایکٹ 2010 کے ذریعے بحال ہونے کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین پر عدالت عظمی کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کے 28 ملازمین مختلف الزامات پر برطرف
واضح رہے کہ پیپلزپارٹی نے 2010 میں اپنے دور حکومت میں ایکٹ 2010 کے تحت سینکڑوں ملازمین کو بحال کرتے ہوئی ترقیاں بھی دی تھیں۔
اس ایکٹ کے خلاف سول ایوی ایشن، پاکستان ٹیلی کمیونیکشن، انٹیلی جنس بیورو، ٹریڈنگ کارپوریشن سمیت 72 اداروں کے ملازمین نے درخواستیں دائر کی تھی۔
ملازمین بحالی ایکٹ کو لاگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس ایکٹ کا مقصد 25 اداروں اور ان سے منسلک اداروں کے 9ہزار سے زائد ملازمین کو ریلیف فراہم کرنا ہے جن کو 90 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھرتی کیا گیا تھا لیکن مسلم لیگ(ن) نے اپنے دور حکومت میں انہیں برطرف کردیا تھا۔
اس معاملے کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 1997 میں اس وقت کی مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے 1995 اور 1996 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کی گئی تمام تر بھرتیوں کو سیاسی قرار دیتے ہوئے ملازمین کو نوکریوں سے برخاست کردیا تھا۔
ان ملازمین نے بحالی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا اور اس معاملے کو سپریم کورٹ تک لے گئے تھے لیکن وہ ججوں کو قائل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
یہی صورتحال ایک دہائی تک برقرار رہی تھی تاہم 2010 میں پیپلز پارٹی حکومت نے برطرف ملازمی بحالی ایکٹ متعارف کرایا تھا اور 2010 کے اواخر میں اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں سے منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی۔
بعدازاں حکومت کو ان ملازمین کو اداروں میں سمونے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ متعدد وزارتیں صوبوں کو منتقل ہو چکی تھیں لیکن اس کے باوجود اس وقت کی حکومت نئی وزارتوں میں ان کی جگہ بنانے میں کامیاب رہی تھی۔
2011 میں قومی اسمبلی میں اس معاملے پر ہونے والی بحث میں ملازمین کی بحالی کو قومی خزانے پر بوجھ قررا دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ان برطرف ملازمین کی بحالی سے قومی خزانے کو ماہانہ 2.4ارب روپے نقصان پہنچ رہا ہے۔
معاملہ اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب بحال ہونے والے کچھ ملازمین نے سینئر عہدے دینے کا مطالبہ کردیا اور پروموشن کے مطالبے کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی اور اس کے نتیجے اس وقت کے مستقل ملازمین کی پروموشن کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔
2012 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹیڈ کے ملازمین کی درخواست کی سماعت کرنے والے جسٹس محمد انور خان کانسی کو درخواست گزاروں نے بتایا تھا کہ ادارے میں 226 ملازمین کی بحالی سے ان کی پروموشن رک گئی ہے۔
اسی طرح کی ایک اور درخواست میں ملازمین نے موقف اختیار کیا تھا کہ اگر بحال ہونے والے ملازمین کو سینئر ہونے کے ناطے پروموشن دیا جائے گا تو ان تمام ملازمین کی حوصلہ شکنی ہو گی جو پروموشن کے منتظر ہیں۔