امریکا کا اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکل جانے کا مشورہ
واشنگٹن نے افغانستان میں مقیم امریکی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ فوری طور پر وہاں سے نکل جائیں اور ایسے شہری جن کے پاس سفر کرنے کے وسائل نہیں ہیں انہیں 'وطن واپس لوٹنے کے لیے قرض' دینے کی پیشکش کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی میڈیا کی رپورٹ میں افغانستان میں موجود امریکی شہریوں کو جاری سیکیورٹی الرٹ کا حوالہ دیا گیا جس میں انہیں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ سیکیورٹی حالات اور عملے کی کمی کے باعث امریکی سفارتخانے کے پاس ان کی مدد کے لیے صلاحیت 'انتہائی محدود' ہے۔
انتباہ میں امریکی شہریوں کو کمرشل پروازوں میں سفر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے اور جو افراد وطن واپسی کی ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں 'وطن واپسی کے لیے قرض' دینے کی پیش کش بھی کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان کے متحارب فریقین کو ’امن معاہدہ‘ پیش کردیا
رواں سال کے آغاز میں محکمہ خارجہ نے کابل میں واقع امریکی سفارتخانے کے سرکاری ملازمین کو حکم دیا تھا کہ اگر وہ کہیں اور کام کرسکتے ہیں تو سفارتخانہ چھوڑ دیں۔
ہفتے کو جاری بیان میں امریکی سفارتخانے نے کئی صوبائی دارالحکومتوں پر طالبان کے قبضے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عسکریت پسندوں کی 'افغان شہروں کے خلاف نئی پرتشدد کارروائیاں' ناقابل قبول ہیں۔
امریکی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب زبردستی حکمرانی کے نفاذ کے لیے کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات میں سیاسی تصفیے کی حمایت کے دعوے کے متضاد ہے۔
امریکی سفارتخانے نے طالبان پر زور دیا کہ وہ 'جامع اور مستقل جنگ بندی قبول کریں اور افغان شہریوں کی مشکلات ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات میں مکمل طور پر شریک ہوں'۔
مزید پڑھیں: امن معاہدے کے لیے افغان صدر کا عہدہ چھوڑنا ضروری ہے، طالبان
سفارتخانے کا مزید کہنا تھا کہ 'صرف بات چیت سے ہی جامع سیاسی تصفیے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے جو تمام افغان شہریوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغانستان پھر کبھی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ ہو'۔
تمام امریکیوں سے افغانستان چھوڑنے کے مطالبے کی خبر دیتے ہوئے امریکی میڈیا نے خبردار کیا کہ 'اس عمل سے پہلے سے کمزور افغانیوں کی مزید حوصلہ شکنی ہوگی'۔
امریکی میڈیا نے یہ بھی کہا کہ عسکریت پسندوں نے گزشتہ سال امریکا کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے فوری بعد ہی پرتشدد کارروائیاں شروع کردیں اور انہیں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے افغانستان سے رواں ماہ کے آخر تک تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان سے مزید حوصلہ ملا۔