پاکستان

تحریک انصاف کے ایم پی اے نذیر چوہان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

نذیر چوہان پر کارِ سرکار میں مداخلت، جان سے مارنے کی دھمکیوں سمیت دیگر دفعات پر مشتمل ایک اور مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔
|

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن صوبائی اسمبلی نذیر چوہان کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا۔

ایف آئی اے نے گرفتار ایم پی اے کو ضلعی عدالت میں جوڈیشل مجسٹریٹ یوسف عبد الرحمٰن کے رو برو پیش کیا اور عدالت سے ان کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

ایف آئی کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم سے تفتیش مکمل کرنی ہے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ نذیر چوہان نے سوشل میڈیا کا استعمال کر کے مدعی کے خلاف مواد اپ لوڈ کیا، ایف آئی اے نذیر چوہان سے ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ریکور کرے گا۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر پر الزام: نذیر چوہان کے خلاف مقدمے سے بات بگڑی ہے، جہانگیر ترین

انہوں نے کہا کہ 'ریمانڈ کے دوران ایم پی اے نذیر چوہان کے زیر استعمال ڈیجیٹل میڈیا کی ریکوری عمل میں لائی جائے گی'۔

تاہم عدالت نے ملزم کے دو روزہ جسمانی ریمانڈ کو منظور کرتے ہوئے ایف آئی اے کو 31 جولائی کو ملزم کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔

نذیر چوہان کے خلاف ایک اور مقدمہ درج

لاہور کے تھانہ گرین ٹاؤن میں ایم پی اے نذیر چوہان اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تھانہ صغیر احمد کی مدعیت میں ایک اور مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔

درج کی گئی ایف آئی آر میں کارِ سرکار میں مداخلت، جان سے مارنے کی دھمکیوں سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ آزاد کشمیر انتخابات کے روز ایم پی اے نذیر چوہان اپنے کوآرڈینیٹر اور 25 نا معلوم افراد کے ہمراہ پولنگ اسٹیشن آئے اور ایس ایچ او سے بد تمیزی کی۔

یہ بھی پڑھیں: شہزاد اکبر نے اپنے خلاف متنازع بیان پر نذیر چوہان کے خلاف مقدمہ درج کرادیا

اس میں مزید کہا گیا کہ نذیر چوہان نے پولنگ اسٹیشن کے اندر زبردستی جانے کی کوشش کی تاہم روکنے پر انہوں نے پولیس کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔

واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے رواں برس مئی کے اواخر میں اپنے خلاف متنازع بیان دینے پر جہانگیر ترین ہم خیال گروپ کے رکن صوبائی اسمبلی نذیر چوہان کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔

ایف آئی آر میں شہزاد اکبر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ رکن اسمبلی اور پی ٹی آئی رکن نذیر چوہان نے نجی چینل ‘بول’ میں ایک پروگرام کے دوران ان کے عقیدے سے متعلق جھوٹ پر مبنی الزام لگایا۔

ایف آئی آر کے مطابق مشیر نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ’نذیر چوہان نے میرے مذہبی عقائد کو نقصان پہنچا کر میرے وقار، ملکیت اور جان کو خطرے میں ڈال دیا ہے‘۔

یاد رہے کہ دو روز قبل تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کی جانب سے درج ایک شکایت پر گرفتار کیا گیا تھا، رکن صوبائی اسمبلی کو ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ایک سیل میں منتقل کیا جانا تھا لیکن جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں ضمانت دے دی تھی۔

تاہم گزشتہ روز رکن اسمبلی کو 8 جولائی کو الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ 2016 کی دفعہ 11 (نفرت انگیز تقریر) اور دفعہ 20 کے تحت درج مقدمہ میں گرفتار کیا گیا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298، 500، 505(سی)، 506 اور ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ 29 کو بھی مقدمے کا حصہ بنایا گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے معاون خصوصی کے مذہبی اعتقاد کے حوالے سے سنگین الزامات سوشل میڈیا پر دی گئے بیانات میں بھی عائد کیے اور شکایت کنندہ اس منظم نفرت انگیز مہم پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں جو نذیر چوہان اور دیگر نے ان کے خلاف سوشل میڈیا اور واٹس ایپ چیٹس پر شروع کی ہوئی ہیں۔

ایف آئی آر میں شہزاد اکبر نے مؤقف اپنایا کہ شرپسند عناصرانہیں سرکاری فرائض ی ادائیگی سے روکنے کے لیے بلیک میل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ اس بدنیتی پر مبنی اور نفرت انگیز مہم کا مقصد شکایت گزار کو پاکستان میں بدعنوانی کے سدباب اور احتساب کو یقینی بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے روکنا ہے۔

سرمایہ کار ملکی سلامتی کی صورتحال سے مطمئن ہیں، سروے

'طالبان جو کر رہے ہیں اس کا ہم سے تعلق ہے نہ ہم ان کے ترجمان ہیں'

ویکسین نہ لگوانے والوں کو 31 اگست تک کی ڈیڈ لائن