پاکستان

ویکسین نہ لگوانے والوں کو 31 اگست تک کی ڈیڈ لائن

تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد مقررہ تاریخ سے قبل ویکسینیشن کرالیں، انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، اسد عمر

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے چیئرمین اسد عمر نے خبردار کیا ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد 31 اگست سے قبل ویکسینیشن کرالیں بصورت دیگر انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ساتھ پریس کانفرنس میں اسد عمر نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے افراد اور 18 سال یا اس سے زائد عمر کے طلبہ کے لیے 31 اگست تک ویکسینیش کرانا لازمی ہے۔

مزیدپڑھیں: ملک میں ایک روز کے دوران ریکارڈ 7 لاکھ 78 ہزار ویکسینز لگائی گئیں

علاوہ ازیں چیئرمین این سی او سی نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں تاحال کورونا وبا سے متعلق غیر سنجیدہ رویہ پایا جاتا ہے، ایس او پیز پر عملدر آمد کی سب سے کم شرح سندھ، بلوچستان میں ریکارڈ کی گئی۔

'پورے پورے شہر ہفتوں کے لیے بند نہیں کرسکتے'

اسد عمر کا کہنا تھا کہ ہم نے دنیا میں وبا سے رونما ہونے والے مسائل اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے حالات کے تناظر میں ڈیٹا پر مبنی نظام تشکیل دیا اور اب ہمیں دوبارہ اس نظام کو رائج کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پورے پورے شہر ہفتوں کے لیے بند کریں یہ مسئلے کا علاج نہیں ہے اور علاج یہ ہے کہ متاثرہ علاقے یا محلے کا اسمارٹ لاک ڈاؤن اور ایس او پیز پر عمل کرکے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

'ایس او پیز پر عملدر آمد کی سب سے کم شرح سندھ اور بلوچستان میں ریکارڈ'

اسد عمر نے اعداد و شمار کا حوالے دے کر بتایا کہ ایس او پیز پر عملدر آمد کی سب سے زیادہ شرح اسلام آباد میں 56.4 فیصد جس کے بعد بتدریج خیبرپختونخوا میں 46.6 فیصد، آزاد جموں و کشمیر 42.7 فیصد، گلگت بلتستان میں 37.4 فیصد اور پنجاب میں 38 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

چیئرمین این سی او سی نے بتایا کہ ایس او پیز پر عملدر آمد کی سب سے کم شرح سندھ اور بلوچستان میں ریکارڈ کی گئی جو محض 33 فیصد تھی۔

انہوں نے کہا کہ خصوصاً کراچی میں ہدایات سے متعلق عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت سندھ کے ساتھ تعاون کریں گے اور اس سلسلے فوج یا رینجرز کی معاونت بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔

اسد عمر نے ویکسین سے متعلق کہا کہ جو لوگ اب بھی ویکسین کی اہمیت نہیں سمجھ رہے اور ان کی وجہ سے دوسروں کی زندگی کو خطرہ ہے تو ایسے حالات میں مخصوص نوعیت کی بندش کا وقت آگیا ہے۔

'31 اگست کے بعد مختلف بندش کا اطلاق ہوگا'

انہوں نے کہا کہ کم از کم ایک ویکسین لگوانے والے ہی یکم اگست سے فضائی سفر کرسکیں گے اور اسی طرح سے وہ اساتذہ جنہوں نے اب تک ویکسین نہیں کرائی وہ اسکول، کالج یا کسی بھی تدریسی مرکز میں جا کر نہیں پڑھا سکیں گے۔

اسد عمر نے واضح کیا کہ 31 اگست سے مزید کئی سیکٹرز ہیں جہاں بندش کا اطلاق ہوگا مثلاً بچوں کو اسکول لے جانی والی ویگن، بس یا دیگر گاڑیوں کے ڈرائیورز اور اس کے کنڈیکٹرز کے لیے ویکسینیشن کرانا لازمی ہوگا ورنہ انہیں یہ کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

چیئرمین این سی او سی نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں کام کرنے والے افراد اور 18 سال یا اس سے زائد عمر کے طلبہ کے لیے 31 اگست تک ویکسینیش کرانا لازمی ہے۔

مزید پڑھیں: کووڈ سے دوبارہ متاثر ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، تحقیق

ان کا کہنا تھا کہ پبلک سیکٹر، بینک، نادرا، پراپرٹی آفس میں کام کرنے والے عملے کے لیے بھی 31 اگست آخری تاریخ ہے اگر وہ اپنی ویکسینیشن نہیں کراتے تو انہیں دفتر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ شادی ہالز، شاپنگ مال، سپر اسٹورز، الیکٹرونک مارکٹیں وغیرہ میں کام کرنے والا عملہ بھی ویکسینیشن کرائے بصورت دیگر انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اسد عمر نے واضح کیا کہ کچھ وقت جائزہ لینے کے بعد ایک اور فہرست پیش کی جائے گی اور اس کے لیے ایک نئی تاریخ رکھی جائے گی۔

کراچی میں ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں وبا تیزی سے پھیل رہی ہے، ڈاکٹر فیصل

اس سے قبل وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے جبکہ کراچی میں ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹے میں انتہائی نگہداشت یونٹ میں زیر علاج مریضوں کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ جب ہم بہتر صورتحال میں تھے تب جون میں ایسے مریضوں کی تعداد 2 ہزار سے نیچے تھی جو اب ایک واضح اضافہ ہے جس کی بنیادی بڑی وجہ ایس او پیز پر عملدرآمد کرنا نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز بھی کووڈ-19 کا شکار ہوگئیں

انہوں نے کہا کہ کراچی میں کورونا کے کیسز میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے اور شہر میں قائم کورونا کے انتہائی متاثرہ افراد کے لیے مختص کُل بیڈز میں سے 50 فیصد زیر استعمال ہیں۔

ڈاکٹر فیصل نے واضح کیا کہ بڑے شہروں میں کورونا کے کیسز کے بڑھنے سے اس کا دباؤ ہسپتالوں پر پڑ رہا ہے، کراچی میں نجی ہسپتال پر دباؤ زیادہ ہے اور اگر صورتحال ایسے ہی برقرار رہی تھی نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔

پارلیمانی کمیٹی نے جسمانی سزا کی ممانعت کا بل منظور کرلیا

'ممالک کے درمیان تعلقات ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں'

نورا فتیحی، نیہا دھوپیا، سلینا جیٹلی کو فحش فلموں کی پیش کش کی جانی تھی، رپورٹ