پاکستان

پاکستانی عدلیہ سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ گمراہ کن قرار

پاکستان میں عدلیہ، آزاد اور آئین و قانون کے مطابق کام کررہی ہیں، کسی قسم کے دباؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، دفتر خارجہ
|

اسلام آباد: دفتر خارجہ نے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان کے عدالتی نظام کے حوالے سے جاری کی گئی رپورٹ کو غیرمعقول اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد اور آئین و قانون کے مطابق کام کررہی ہیں۔

منگل کو ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی رپورٹ سے متعلق میڈیا کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد اور عدالتیں ملکی آئین اور قوانین کے مطابق کام کر رہی ہیں اور رپورٹ میں الزامات غلط، حقائق کے برعکس اور گمراہ کن ہیں۔

مزید پڑھیں: عدلیہ کے خلاف فِفتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

انہوں نے کہا کہ متحرک جمہوریت کی حیثیت سے حکومتِ پاکستان، ریاست کی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ شاخوں کے مابین اختیارات کی علیحدگی پر پختہ یقین رکھتی ہے اور پاکستان کی عدلیہ پر کسی قسم کے جبر یا دباؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ترجمان نے کہا کہ اس رپورٹ میں جو بے بنیاد دعوے کیے گئے ہیں وہ ہر سطح پر پاکستانی عدالتوں کے ان لاتعداد فیصلوں کے منافی ہیں جو آزاد عدلیہ کے اعلیٰ معیارات پر پورا اترتے ہیں۔

زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ مذکورہ رپورٹ میں وبائی امراض کے باعث درپیش انتہائی مشکل حالات کے باوجود پاکستان کی جانب سے اپنے کاروبار اور سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے سلسلے میں کی جانے والی پیشرفت اور اصلاحات کو تسلیم کیا گیا لیکن اس میں پاکستان کے ریگولیٹری فریم ورک میں مبینہ کوتاہیوں کی قیاس آرائی کرتے ہوئے ناقابل تصدیق ذرائع سے اپنے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو عدلیہ سے کیا مسئلہ ہے؟

ترجمان دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں باہمی تعاون حکومت پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور ہم پاکستان کی جغرافیائی، اقتصادی صلاحیت کو بہتر طور پر عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی محکمہ خارجہ نے انویسٹمنٹ کلائمیٹ اسٹیٹمنٹ پاکستان 2021 کے نام سے رپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان کے عدالتی نظام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا عدالتوں پر نمایاں اثر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نظریاتی بنیادوں پر دیکھا جائے تو ملک کا عدالتی نظام آزادانہ طریقے سے کام کرتا ہے لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے کیونکہ پاکستان کی عدلیہ، حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے زیر اثر ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ماتحت عدلیہ دراصل اعلیٰ عدالتوں کے زیر اثر اور اس میں اہلیت و شفافیت کا فقدان ہے اور توہین عدالت کی کارروائی کے ڈر کی وجہ سے عوام عدالتی نظام کی کمزوریوں پر سوالات نہیں اٹھا پاتے۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: 'غصہ آئی ایس آئی پر تھا، تضحیک عدلیہ کی کردی گئی'

محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں 2020 کی کرپشن کے حوالے سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا گیا اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ قانون کے تحت رشوت قابل سزا جرم ہونے کے باوجود حکومت میں ہر سطح پر رشوت عام ہے۔

اس سلسلے میں نیب کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتیں قومی احتساب بیورو (نیب) کو سیاسی لحاظ سے متعصب سمجھتی ہیں اور ادارے کی کارروائیوں کی وجہ سے کاروباری شعبہ بھی متاثر ہوا ہے۔

رپورٹ میں غیرملکی ثالثی عدالتوں اور عالمی فیصلوں پر عملدرآمد میں مقامی عدالتوں کی ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ مقامی عدالتیں ایسے فیصلوں کو مانتی ہیں اور نہ ہی ان پر عمل کراتی ہیں۔

سابق کرکٹر عبدالرزاق کا 22 سال بعد ڈانسر سے تعلقات کا اعتراف

ایک سال قبل سہولیات فراہم کی جاتیں تو آج ہم گولڈ میڈل کا جشن منا رہے ہوتے، طلحہ طالب

‘سرکاری رائفل برآمد’، صحافی اسد کھرل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا