دنیا

سعودی عرب کی سوفٹ ویئر کے ذریعے صحافیوں کی نگرانی کے الزامات کی تردید

جس طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں، سعودی عرب کی پالیسیوں میں اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں ہے، سعودی حکام

سعودی عرب نے اسرائیلی خفیہ سوفٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی نگرانی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بے بنیاد قرار دے دیا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے کہا کہ ‘سعودی حکام نے میڈیا پر جاری ہونے والی حالیہ رپورٹس میں لگائے گئے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے کہ حکومت نے فون کالز کی خفیہ نگرانی کی’۔

مزید پڑھیں: صحافیوں و سرکاری عہدیداروں کی جاسوسی کیلئے اسرائیلی سافٹ ویئر کے استعمال کا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ ‘ذرائع نے مزید بتایا کہ جس طرح کے الزامات لگائے گئے ہیں وہ سچ نہیں ہیں اور سعودی عرب کی پالیسیوں میں اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں ہے’۔

سعودی عرب دنیا بھر میں ان چند ممالک میں شامل تھا جن کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ، گارجین اور فرانس کے لی مونڈے سمیت 17 اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وہ اسرائیل کے بنائے ہوئے خفیہ نگرانی کے سوفٹ ویئر پیگاسس کا استعمال کرتے ہوئے ان پر تنقید کرنے والے اپنے شہریوں کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسرائیلی ہیکنگ فرم نے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے موبائل فون ہیک کیے۔

رپورٹ کے مطابق صحافتی اداروں کی تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ اسرائیلی فرم ’این ایس او‘ نے ایک ہزار صحافیوں کے موبائل فون تک رسائی حاصل کی اور مجموعی طور پر 50 ہزار موبائل نمبرز کا جائزہ لیا۔

عالمی میڈیا کی تہلکہ خیز رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیلی فرم نے جن 37 موبائل فونز کو ہیک کیا، ان میں 2018 میں ترکی میں قتل کیے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی رشتے دار دو خواتین بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی کمپنی نے بڑے پیمانے پر عرب سیاست دانوں، کاروباری حضرات اور سربراہان مملکت کو بھی نشانہ بنایا اور ان کے موبائلز تک رسائی حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی خفیہ سافٹ ویئر 'پیگاسس' کیسے کام کرتا ہے؟

دوسری جانب ’این ایس او‘ گروپ نے مذکورہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسکینڈل کو اپنے خلاف سازش قرار دیا تھا۔

ہیکنگ فرم نے واضح کیا تھا کہ وہ مقتول صحافی جمال خاشقجی کے قتل سے قبل یا بعد میں ان کی کسی بھی رشتے دار خاتون کے فون ہیک کرنے میں ملوث نہیں۔

گارجین نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ تفتیش میں این ایس او کے ہیکنگ سوفٹ ویئر کی جانب سے نشانے بنانے کو وائرس سے تعبیر کیا گیا جو اسمارٹ فونز کو پیغامات، تصاویر، ای میلز، کال ریکارڈ اور مائیکروفونز کو خفیہ طور پر فعال کرکے متاثر کرتا ہے۔

اے ایف پی، وال اسٹریٹ جرنل، سی این این، نیویارک ٹائمز، الجزیرہ، فرانس 24، ریڈیو فری یورپ، میڈیا پارٹ، ایل پائس، ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی)، لی مونڈے، بلومبرگ، دی اکنامسٹ، رائٹرز، وائس آف امریکا اور گارجین سے منسلک صحافی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

اے پی کے میڈیا ریلیشنز کے ڈائریکٹر لورین ایسٹون کا کہنا تھا کہ ہم یہ جان کر شدید کرب میں ہیں کہ اے پی کے دو صحافی بھی دیگرمیڈیا اداروں سے منسلک صحافیوں کے ساتھ پیگاسس کے جاسوسی نشانے پر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے صحافیوں کی ڈیوائسز کی سیکیورٹی کے لیے یقینی اقدامات کیے ہیں اور تفتیش بھی کر رہے ہیں۔

رائٹرز کے ترجمان ڈیو موران نے کہا تھا کہ صحافیوں کو جہاں کہیں بھی ہوں عوام کے مفاد میں بغیر ہراسانی کے خوف یا نقصان کے رپورٹ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم رپورٹس سے آگاہ ہیں اور اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان بھی اسرائیل کے جاسوسی سوفٹ ویئر کے ذریعے بھارتی نشانے پر رہے، رپورٹ

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس عمل کو جاسوسی سوفٹ ویئر کے ‘ہول سیل کی عدم ریگیولیشن’ سے تعبیر کیا۔

عالمی ادارے نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جب یہ کمپنی (این ایس او) اور صنعت مجموعی طور پر انسانی حقوق کا احترام نہیں کرسکتی اس کے برآمد، فروخت، منتقلی اور جاسوسی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال فوری طور پر غیر فعال ہونا چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق پیگاسس سوفٹ ویئر ماضی میں الجزیرہ کے رپورٹرز اور مراکش کے صحافیوں کے فون ہیک کرنے کے لیے استعمال ہوا تھا جس کو سٹیزن لیب نے رپورٹ کیا تھا جو یونیورسٹی آف ٹورنٹو اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایک تحقیقی سینٹر ہے۔