پاکستان

کام کی جگہ پر ہراسانی کے قانون کا دائرہ محدود ہے، سپریم کورٹ

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق قانون کا نفاذ جنسی طور پر ہراساں کرنے کی حد تک ہی محدود ہے۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 حیرت انگیز طور پر بناوٹی قانون سازی کا ایک ٹکڑا ہے جو اس کے نفاذ سے ظاہر ہوتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس مشیر عالم نے سرکاری نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی ایک سابق ملازمہ کی طرف سے دی گئی درخواست پر فیصلے میں لکھا کہ ’اس ایکٹ کی مجموعی طور پر جانچ پڑتال کی جائے تو یہ ایکٹ اس کے عنوان اور تجویز کو دیکھ کر جو توقع کی جاتی ہے، اس کے مطابق نہیں ہے‘۔

تین ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ، جس نے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے بارے میں نادیہ ناز کے کیس کی سماعت کی تھی، نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزار ایکٹ کے تحت جنسی ہراسانی کے کیس کو قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔

مزید پڑھیں: خصوصی رپورٹ: پاکستان میں خواتین کو کام کی جگہوں پر کیسے ہراساں کیا جاتا ہے

واضح رہے کہ نادیہ ناز کو 4 ستمبر 2007 کو پی ٹی وی میں بطور ریسورس پرسن (کیمرہ ڈپارٹمنٹ) تعینات کیا گیا تھا۔

ان کے خلاف محکمہ جاتی، چارج شیٹ، شوکاز نوٹس کی کارروائی کی گئی تھی اور اس کے نتیجے میں ان کی سروسز کو 13 مئی 2017 کو ان کی کام کی جگہ پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے وفاقی محتسب کی شکایت کے زیر التوا ہونے کے دوران ختم کردیا گیا تھا۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کسی کو بھی جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے جبکہ پاکستانی معاشرے میں خواتین زیادہ تر اس کا شکار ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی معاشرے یا تنظیم میں ہراساں کرنا رجعت پسندانہ طرز عمل ہے جس سے ایک خوفناک، دشمنی، مایوس کن اور جارحانہ ماحول پیدا ہوتا ہے اور اس سے کسی بھی معاشرے یا تنظیم کی مجموعی کارکردگی اور ترقی بُری طرح متاثر ہوتی ہے'۔

فیصلے کے مطابق چاہے کسی بھی صورت میں ہراساں کیا جائے، متاثر کن ہوتا ہے اور اس سے انسانی وقار کی پامالی ہوتی ہے جس کی آئین ضمانت دیتا ہے۔

ایکٹ کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے فیصلے میں واضح کیا گیا کہ یہ ہراسانی کے معاملات کو ایک جامع انداز میں حل کرنے کے بجائے تنگ نظر قانون سازی کا ایک ٹکڑا ہے، جس میں صرف ہراساں کرنے کے چند حصوں پر توجہ دی گئی ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے مشاہدہ کیا کہ اس ایکٹ کا نفاذ جنسی زیادتیوں تک محدود کردیا گیا ہے، کام کی جگہ یا عوامی مقام پر توہین آمیز سلوک یا جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 509 کے تحت مجرمانہ کارروائی قرار دیا گیا ہے، جس کی سزا تین سال تک قید اور 5 لاکھ روپے تک کا جرمانہ یا دونوں ہوسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ہوں، ’جسم فروش‘ نہیں، ہراساں کرنے والے کو مریم نفیس کا جواب

فیصلے میں واضح کیا گیا کہ ایکٹ کے سیکشن 2 (ایچ) کے تحت کسی بھی ادارے میں ملازم ساتھی یا آجر کی جانب سے ملازمت کی جگہ پر کسی ملازم، یا آجر کی جانب سے کوئی غلط سلوک یا طرز عمل جو ہراساں کی تعریف میں شامل ہے کو کارروائی کے قابل نہیں بنایا گیا ہے۔

اس قانون کے تحت خاص طور پر کام کرنے والی خواتین کو ہی نہیں مردوں کو بھی کام کی جگہ پر ’جنسی نوعیت کی ہراسانی کا سامنا کرنے‘ سے بچانے کے لیے قانون سازی کی گئی تھی، لہٰذا کسی بھی طرح ہراساں کیے جانے کے اقدام کو وفاقی محتسب کے سامنے قابل عمل نہیں بنایا گیا ہے۔

فیصلے کے مطابق ایکٹ کے سیکشن 2 (ایچ) میں دی گئی اصطلاح 'جنسی' کے علاوہ دیگر طرح کی ہراسانی کو دائرہ کار میں نہیں لاتی۔

بھارت: انسانی حقوق کے علمبردار سابق پادری کی دوران حراست موت پر احتجاج

آئندہ 6 ماہ میں 4 لاکھ ’الیکٹرانک ووٹنگ مشین‘ بنائی جائیں گی، شبلی فراز

پشاور کے یوسف خان بھارت کے دلیپ کمار کیسے بنے؟