پاکستان

جمہوریت کی تحریک ابھی جاری ہے

آئی جی سندھ کو دورہ ملتوی کرنا پڑا کیونکہ ان کے پولیس گارڈز نے انہیں تحفظ دینے سے انکار کردیا تھا۔

اگست انیس سو تراسی کو بالآخرضیاء شاہی کے خلاف چھ سال سے پکتا ہوا لاوا دھماکے سے پھٹ پڑا اور لوگ بغاوت پر اتر آئے۔

ملک بھر میں چلائی گئی تحریک میں باقی صوبے بھی شامل ہوئے لیکن سندھ میں اس کا زور کچھ اور ہی تھا جہاں یہ پرامن تحریک تشدد میں بدلی اور جس کے بعد سندھ کا تشخص ہی بدل گیا۔

ضیا دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کثیر جماعتی اتحاد ایم آرڈی کا باضابطہ قیام چھ فروری انیس سو اکیاسی کو ستر کلفٹن پر منعقدہ ایک اجلاس میں عمل میں آیا۔ اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ خواجہ خیرالدین گروپ، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان مزدور کسان پارٹی، پاکستان نیشنل پارٹی، نیشنل عوامی پارٹی، قومی محاذ آزادی، جمیعت علمائے اسلام، اور تحریک استقلال نے شرکت کی۔ بعد میں عوامی تحریک اور پاکستان نیشنل پارٹی بھی اس اتحاد میں شامل ہوگئیں۔

یوں مختلف نظریات رکھنے کے باوجود یہ تمام جماعتیں ضیاء کے مارشل لا کے خلاف متحد ہوگئیں۔ الائنس کا چار نکاتی ایجنڈا تھا:

۔ مارشل لا کا خاتمہ

۔ آئین کی بحالی

۔ پارلیمانی انتخابات

۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کا انتقال

قیام پاکستان کے بعد سندھ کے لوگوں نے پہلی مرتبہ عوامی سطح پر سرگرمی دکھائی اور تحریک کو طاقت دی۔ ضیا ٹولے نے اس تحریک کو سندھ کی علحدگی یا پاکستان کے خلاف تحریک قرار دینے کی ناکام کوشش کی مگر بعد میں ضیا دورکے سیکریٹری داخلہ روئیداد خان نے اعتراف کیا کہ حکومت اس تحریک کے بارے میں تصور تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئی جس کی وجہ سے اس کو بڑے پیمانے پر ملک گیر حمایت حاصل نہ ہو سکی۔

ایم آرڈی کو پہلا دھچکا پی آئی اے جہاز کے ہائی جیکنگ سے لگا۔ کراچی سے پشاور جانے والی پرواز کو ہائی جیک کرکے کابل کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا اور  بعد میں اسے شام کے دارالحکومت دمشق لے جایا گیا۔

ہائی جیکنگ کا ڈرامہ جب ختم ہوا تو ہائی جیکر ایک فوجی افسر سمیت چھ افراد کو قتل کر چکے تھے۔ حکومت نے جہاز کے مسافروں کے عوض، ساٹھ سیاسی قیدیوں کو، جن میں اکثریت پیپلز پارٹی کے لیڈروں کی تھی، رہا کیا۔ واقعہ کی ذمہ داری الذوالفقار نے قبول کی جس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو تھے۔

حکومت نے اس واقعے کو پیپلز پارٹی سے منسلک کرنے کی کوئی کوشش رائیگاں نہ جانے دی۔ حکومتی پروپیگنڈا اور الذولفقار کے نام پر گرفتاریوں نے ایک غیر معمولی خوف کی فضا پیدا کردی اور یوں مارشل لاء کے خلاف تحریک کو دو سال پیچھے دھکیل دیا۔

ایم آرڈی  کو دوبارہ سرگرم اور منظم ہونے میں دو سال لگے اور چودہ اگست انیس سو تراسی میں ملک میں سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس پر ضیاء شاہی آمریت دباؤ میں آگئی اور تحریک شروع ہونے سے صرف دو دن پہلے ضیا نے ایک نئے سیاسی ڈھانچے کا اعلان اور مرحلہ وار انتخابات کرانے کا وعدہ کر لی۔ تاہم اس نے فوج کے کردار، تہتر کے آئین اور سیاسی پارٹیوں کے کردار کے بارے میں کوئی واضح بات نہ کی۔سو اس اعلان کا تحریک پر کوئی اثر نہ ہوا۔

فیصلے کے مطابق ایم آر ڈی کے کارکنوں اور لیڈروں نے بشمول پیپلز پارٹی کے قائم مقام چیئرمین غلام مصطفیٰ جتوئی کے، مقررہ تاریخ پر رضاکارانہ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا۔ چند ہی روز میں ہی تحریک زور پکڑ گئی۔ طلبہ، مزدور، وکلاء اور دیگر پیشہ ورانہ تنظیموں نے بھی تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ جب مزدورروں کی شرکت بڑھنے لگی تو حکومت نے آرڈیننس جاری کیا جس کی رو سے پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے پر سزائے موت تجویز کی گئی۔ مگر اس کے باوجود مزدور تنظیمیں باز نہ آئیں۔

بظاہر لگتا ہے کہ سندھ میں تحریک نے چند ہفتوں میں زور پکڑا لیکن دراصل یہ لاوا ایک عرصے سے پک رہا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کو دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ نو اگست انیس سو اسی کو سندھ کے نوجوان لیڈر نذیر عباسی کو اذیت دے کر مار دیا گیا اور پھر ان لاش تک کو لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا۔ تب تک سندھ کی مختلف جیلیں درجنوں سیاسی کارکنوں سے بھر چکی تھیں  جنہیں مارشل لا ء کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کرکے قید اور کوڑوں کی سزائیں سنائی گئیں تھیں۔ لوگوں کو غصہ تھا۔ ایسا بھی لگتا تھا کہ وہ بھٹو کے قتل کا ’’پلاند‘‘ (بدلہ) بھی لینا چاہتے تھے۔

دوسری طرف سندھی سماج میں احساس محرومی تھا، خاص طور پر حکومتی حلقوں تک رسائی کا۔ وہ اس حکومتی ایوانوں میں خود کو اس حصے سے محروم تصور کرتے تھے تھے جو انہیں بھٹو نے دیا تھا۔ یہاں تک کہ وڈیرے بھی اقتدار سے باہر تھے۔ اس لیے وہ بھی اس تحریک کے ذریعے اقتدار میں واپسی کا راستہ ڈھونڈھ رہے تھے۔ اس سے پہلے سندھ میں ون یونٹ کے خلاف تحریک چلی تھی مگر اس میں وڈیرہ شامل نہیں ہوا تھا۔

جب تحریک سندھ میں عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو مارشل لا حکام نے مظاہرین پر گولیاں، آنسو گیس اورلاٹھیاں برسائیں۔ تحریک اتنی جاندار تھی کہ غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے محتاط سیاستدان بھی گرفتاری دینے کے لیے تیار ہو گئے۔

دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سندھ میں تحریک کا کردار خود رو تھا۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس میں دیہی آٓبادی زیادہ تھی اور منصوبہ بندی اور رہنماؤں کے بغیر ہی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اس میں عوام کی شرکت اور ہجوم کا ایکشن زیادہ تھا جو کہ دوسرے صوبوں میں نہیں تھا۔

تاہم سندھی قوم پرست جی ایم سید اس تحریک سے دور رہے اور ان کے مطابق یہ عوام کی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی تحریک تھی۔ تاہم ایک وقت پر وہ بھی مجبور ہوگئے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو لکھیں کہ سندھ میں خوں ریزی بند کرائی جائے۔

سندھ میں عام لوگوں کو موبلائیز کرنے میں چار عناصر نے کام کیا:

سب سے اہم عنصر پیپلز پارٹی تھی جس کے لیے لوگوں کے دلوں میں کشش موجود تھی۔ پھر اس کی قیادت وڈیرہ کررہا تھا۔ دیہی لوگ بڑے آدمی کے سائے میں لڑنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں سو اس نے ان کو باہر نکلنے میں مدد دی۔

دوسرے نمبر پر بائیں بازو کی تنظیمیں تھیں۔ ان تنظیموں نے تیسری طاقت کے طور پر کام کیا جس میں عوامی تحریک، ہاری کمیٹی، ارباب کھوڑ کی سندھ وطن دوست پارٹی اور کمیونسٹ شامل تھے۔

تیسرا عنصر سندھ کے دانشو تھے۔ انہوں نے اس تحریک کو فکری بنیادیں فراہم کیں اور عوام کا ساتھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ سائیں جی ایم سید کی مخالفت کے باوجود لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔

تحریک میں آخری عنصر مذہبی رہنماؤں کا تھا جنہوں نے مولانا شاہ محمد امروٹی کی قیادت میں تحریک کا ساتھ دیا۔

یہ ناصرف ضیا ء کی پالیسیوں کے خلاف سندھ کے لوگوں کا ردعمل تھا بلکہ مظاہرین بھٹو کا انتقام لینے کے نعرے بھی لگایا کرتے تھے۔ سندھ کے لوگوں کے نزدیک مارشل اور فوج کا مطلب پنجاب ہے۔ سندھیوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان کے مفادات مارشل لا کے تحت محفوظ نہیں ہیں۔

تشدد تشدد کو ہی جنم دیتا ہے۔ جب مارشل لا حکام نے تشدد شروع کیا تو جواب میں فائرنگ، ٹرینوں، تھانوں، بینکوں اور سرکاری املاک پرمسلح حملے ہونے لگے۔ تحریک کے چوتھے ہی دن دادو میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ پانچویں دن چار افراد ہلاک ہوئے اور تحریک اور تیز ہوگئی۔ مارشل لا اتھارٹیز نے اور سخت اقدامات کئے تو لوگ اور بپھر گئے۔  لوگوں میں سزاؤں اور گرفتاریوں ڈر ختم ہونے لگا۔ خیرپور ناتھن شاہ میں سات افراد اور گوٹھ پنھل چانڈیو میں سولہ افراد ہلاک ہوگئے۔

سرکاری طور پر کہا گیا تھا کہ اکسٹھ افراد ہلاک اور دو سو زخمی ہوئے جبکہ چار ہزار چھ سو اکیانوے کو گرفتار کیا گیا مگر محققین کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں مرنے والوں کی تعداد چھ سےآٹھ سو سے زیادہ تھی اور پندرہ ہزار سے زائد گرفتار کیے گئے۔ جیلیں بھر گئیں اور وہاں مزید قیدی رکھنے کی گنجائش نہ رہی۔ دادو اور بدین میں ضیاء الحق کو آنے نہیں دیا گیا۔

ایم آرڈی تحریک کی وجہ سے صوبے میں انتظامیہ غیرموثر ہوکر رہ گئی۔ امن وامان کی صورتحال اتنی تباہ ہوئی کہ اس کا اظہار سابق گورنر جنرل جہانداد خان کے ان واضح الفاظ میں ملتا ہے: بشیر صدیقی آئی جی سندھ پولیس کو دادو سے لاڑکانہ کا دورہ ملتوی کرنا پڑا کیونکہ ان کے پولیس گارڈز نے ان کو تحفظ دینے سے انکار کردیا تھا۔

جہاں تحریک سندھ میں سیاسی تبدیلی کا لینڈ مارک ثابت ہوئی وہاں پنجاب میں اسے وہ پذیرایی نہ حاصل ہو پایی۔ شاید پنجاب فوج اور بیوروکریسی میں بھرپور نمائندگی کی وجہ سے مارشل لا کے تحت بھی اقتدار میں شریک تھا۔ پھر یہ بھی کہ ضیا حکومت کا رویہ پنجاب میں اتنا سخت نہیں تھا۔ یہ وہ دوری ہے جو سندھ اور پنجاب کے درمیان ضیا آمریت نے ایسی بوئی کہ آج بھی اس کے اثرات دکھاؕئی دیتے ہیں۔

 یوں سندھ اکیلا رہ گیا اور یہاں تحریک کو پرتشدد بنانا آسان ہوگیا۔ یہاں تک کہ بعد میں غلام مصطفیٰ جتوئی نے بھی ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر پنجاب ساتھ دیتا تو ضیا کو جانا پڑتا۔