اقتصادی سروے 21-2020: گزشتہ برس کے مقابلے مہنگائی میں نمایاں کمی ہوئی
کراچی: اشیائے ضروریہ کی بلند قیمتوں کے دوران اقتصادی سروے برائے سال 2021-2020 کہتا ہے کہ 'جولائی تا اپریل کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) سے پیمائش کردہ افراط زر 8.6 فیصد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران 11.2 فیصد تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جلد خراب نہ ہونے والی کھانے کی اشیا نے خوراک اور غیر الکوحلک مشروبات کی مہنگائی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جس میں گزشتہ برس کے اسی عرصے کے دوران 12.4 فیصد کے مقابلے16 فیصد اضافہ ہوا۔
جلد خراب نہ ہونے والی کھانے پینے کی اشیا میں قیمتوں میں اضافے کا سب سے زیادہ دباؤ پولٹری گروپ (چکن، انڈوں) سے آیا جس کے بعد اجناس (گندم، آٹے، خوردنی) نے اہم کردار ادا کیا۔
یہ بھی پڑھیں:قومی اقتصادی سروے: معیشت کے استحکام کے بجائے اب نمو پر توجہ دینی ہے، وزیر خزانہ
پلوٹری گروپ کی قیمتوں میں ہوئے اضافے کی وجہ وہ وائرل بیماری ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے سپلائی میں خطرات پیدا ہوئے۔
فراہمی متاثر ہونے کی وجہ سے اپریل 2021 میں گندم کی قیمت اپریل 2020 کے مقابلے 24 فیصد بڑھی جبکہ حکومت کی جانب سے بلارکاوٹ فراہمی یقینی بنانے کی کوششوں کی وجہ سے مارچ 2021 میں اس میں 9 فیصد کی کمی ہوئی تھی۔
اس اقدامات میں سے ایک صوبوں میں خریداری کے اداروں کی جانب سے بروقت گندم جاری کرنا اور یوٹیلیٹی اسٹور، فیئر پرائس شاپس کے ذریعے اس کی فراہمی بھی تھا۔
بڑے پیداواری علاقوں میں موسم سے وابستہ خدشات کی وجہ سے عالمی سطح کی انوینٹری کی سطح میں تیزی سے سکڑاؤ کے دوران عالمی منڈیوں میں جون 2020 سے خوردنی تیل، پام آئل اور سویابین کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔
مزید پڑھیں: اقتصادی سروے 21-2020: ٹیکس چھوٹ میں حکومت کو 13 کھرب کا نقصان
ہاؤسنگ، پانی، بجلی، گیس اور دیگر ایندھنوں کی قیمت میں جولائی سے اپریل کے دوران 5.7 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ برس اسی عرصے میں 7.1 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مالی سال 21 کی پہلی سہ ماہی میں کنزیومر پرائس انڈیکس گزشتہ برس کے 10.08 فیصد کے مقابلت 8.85 فیصد تک کم ہوگیا تھا لیکن اشیائے خورونوش کی قیمتیں بلند رہیں۔
مالی سال 21 کی دوسری سہ ماہی میں دیکھا گیا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس میں بڑا محرک اشیائے خورونوز ہیں جس کی وجہ صوبوں کے درمیان قیمتوں کا تفاوت تھا۔
مالی سال 21 کی تیسری سہ ماہی میں حکومت کی جانب سے اشیائے خورونوش کی بلا تعطل فراہمی نے مہنگائی کو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے 12.38 فیصد کے مقابلے 7.8 فیصد تک کم کرنے میں مدد دی۔
تاہم معاشی بحالی کے سبب ریسٹورنٹس، ہوٹلز، کپڑوں، جوتوں، ہاؤسنگ، پانی، بجلی، گیس اور دیگر ایندھنوں کی قیمتیں نسبتاً بلند رہیں۔
دیہی علاقوں میں قیمتوں کی نگرانی کا فقدان
شہری اور دیہی علاقوں میں قیمتوں کے فرق کی وجہ دیہی علاقوں میں قیمتوں کی نگرانی کے فقدان کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
تاہم دیہی علاقوں میں اشیائے خورونوش کی مہنگائی شہری علاقوں کے مقابلے کم رہی کیوں کہ خوراک کی زرعی اشیا ان ہی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بجٹ 2022 میں بالواسطہ، بلاواسطہ ٹیکسز میں اضافے کا امکان
دیہی علاقوں میں اشیائے خورونوش کے علاوہ دیگر چیزوں کی مہنگائی کی وجہ نقل و حمل کی لاگت کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
جولائی تا اپریل کے عرصے میں شہری علاقوں میں بنیادی مہنگائی 5.8 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 7.6 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ مال سال 2020 میں یہ بالترتیب 7.8 اور 8.7 فیصد تھی۔
مہنگائی کنٹرول کرنے کے حکومتی اقدامات
حکومت اجناس کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنا کر، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا جائزہ لے کر مہنگائی کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے کاشت کاروں کو مراعات فراہم کرنے کے اقدامات بھی اٹھا رہی ہے اور اس سلسلے میں خریف 2021 کے لیے 19 ارب 20 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی۔
اس کے علاوہ حکومت خوردنی تیل اور دالوں سمیت اہم اشیائے خورونوش کی پیداوار بڑھانے کے لیے وسط اور طویل مدتی حکمت عملی پر بھی توجہ دے رہی ہے، یہ اقدامات قیمتوں میں اضافے کے خطرات کم کریں گے۔