شہباز شریف کی گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی مشاورت
لاہور: مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں نے اپنے قائد نواز شریف سے گفتگو میں اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے حق میں اور مخالفت میں اپنی اپنی رائے پیش کردی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پارٹی ذرائع نے بتایا کہ 'پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے حالیہ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی حکومت کے 2023 کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کروانے کے منصوبے کو پوری طرح مسترد کردیا جبکہ شہباز شریف کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کرنے کی تجویز کے سلسلے میں مختلف رائے دی'۔
اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں شاہد خاقان عباسی، پرویز رشید، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، حمزہ شہباز اور خرم دستگیر شامل تھے جبکہ نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی موجودگی کو یقینی بنایا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ 'یہ پارٹی کا داخلی اجلاس تھا اور آنے والے دنوں میں اس طرح کی مزید اجلاس منعقد کیے جائیں گے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ پارٹی اپنی مزاحمت کی پالیسی کو جاری رکھے اور اپنے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے پر قائم رہے یا اس میں کچھ لچک دکھائے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آئندہ انتخابات میں اوپن گراؤنڈ کے لیے بات چیت کرے'۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو لانے والے اب گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں، نواز شریف
اجلاس میں پرویز رشید نے شرکا کو پارٹی کے ووٹ کو عزت دو اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ میں کی مداخلت نہ ہونے کے بیانیے کی کامیابی یاد دلائی۔
انہوں نے کہا کہ 'مسلم لیگ (ن) کے اس بیانیے کو تقریبا پانچ سال گزر چکے ہیں، کیا کوئی مجھے بتائے گا کہ ہمارے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں، پنجاب اور کے پی کے میں تقریباً تمام ضمنی انتخابات میں کامیابی اس بات کا ثبوت ہے اور آج خاص طور پر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کی سب سے زیادہ طلب ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مسلم لیگ (ن) تمام انتقامی کارروائیوں کے باوجود آج ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے'۔
پرویز رشید نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ جو بیانیہ گزشتہ پانچ سال سے کامیاب رہا ہے اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں ہے۔
انہوں نے اس تاثر پر بھی سوال اٹھایا کہ پارٹی کے اراکین پریشان ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ قیادت اگلے انتخابات سے پہلے اہم لوگوں سے بات چیت کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ایسا ہوتا تو ہمارے ٹکٹ کی اتنی مانگ نہیں ہوتی اور یہ حقیقت یہاں سب کو معلوم ہے'۔
سابق وفاقی وزیر اطلاعات نے پارٹی کو یاد دلایا کہ 'جن لوگوں نے نواز شریف کو سیاست سے ہٹا دیا تھا وہ آج ان سے بات کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) میں کس کا بیانیہ چلے گا؟
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارٹی کو اپنے بیانیے پر قائم رہنا چاہیے تاہم اسے (اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ) ٹکراؤ سے گریز کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ آئندہ انتخابات کسی بھی ادارے کی مداخلت کے بغیر آزادانہ اور منصفانہ ہوں، ہمیں اپنے اصولی مؤقف پر قائم رہنا چاہیے'۔
مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے نواز شریف سے پارٹی میں نائب صدر مریم نواز کے 'قائدانہ عہدے' کا تعین کرنے کی درخواست کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جب پارٹی کی مرکزی قیادت جیل میں تھی تب مریم نواز نے پارٹی کی قیادت کی تھی اور کارکنوں کو متحرک کیا تھا، اب وہ گھر بیٹھی ہیں لہذا انہیں پارٹی میں کچھ فعال کردار ادا کرنا چاہیے'۔
سابق وزیر ریلوے سعد رفیق نے بھی بات چیت کے حق میں بات کی اور کہا کہ 2023 میں 2018 کے انتخابات دہرائے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت کی سیاست پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔
حمزہ شہباز نے بھی گرینڈ ڈائیلاگ کی حمایت کی اور اس کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا خیال تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو کسی ’نااہل وزیر اعظم‘ کو اقتدار میں لانے کی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو پارٹی کو اسے ایک راستہ فراہم کرنا چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے۔
مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن)، پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں استعفوں کیلئے دباؤ ڈالے گی
اسحٰق ڈار نے الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی حکومت کی ممکنہ دھاندلی کی کوشش کی وضاحت کی۔
بعد ازاں پارٹی اس معاملے پر بات چیت نہ کرنے پر راضی ہوگئی، یہاں یہ بات واضح رہے کہ نواز شریف نے اس اجلاس سے خطاب نہیں کیا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے گزشتہ ہفتے ایک ٹی وی انٹرویو میں ملک کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ کا خیال پیش کیا تھا۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ نواز شریف ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے پر راضی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 'اس کے لیے آگر میاں صاحب (نواز شریف) کا پاؤن بھی پکڑنا پڑے تو پکڑوں گا'۔