پاکستان

ملازمت کیلئے صرف مرد اُمیدواروں سے درخواستیں طلب کرنے پر حکومت سندھ کی معذرت

سندھ کے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ نے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے دیے گئے اشتہار میں صرف مرد کا لفظ استعمال کیا تھا۔

حکومت سندھ کے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ نے وائس چانسلر کے عہدے کے لیے صرف مرد اُمیدواروں سے درخواستیں طلب کرنے کا اشتہار شائع ہونے پر غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلی۔

یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ نے چند دن قبل مختلف اخباروں میں سندھی، اردو اور انگریزی میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے نوکری کا اشتہار دیا تھا۔

مذکورہ اشتہار جامشورو میں قائم شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ، ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے لیے وائس چانسلر کے خالی عہدے بھرنے کے لیے دیا گیا تھا۔

اشتہار میں وائس چانسلر کی درخواست دینے کے لیے امیدوار کی تعلیم پی ایچ ڈی، ایم فل یا ماسٹر کی شرط رکھی گئی تھی جب کہ اُمیدوار کے لیے 15 سالہ آرٹ ڈیزائن کا تجربہ اور عالمی جرائد میں ریسرچ پیپرز کی اشاعت کی شرط بھی رکھی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وی سی کے عہدے کیلئے صرف مرد اُمیدواروں سے درخواستیں طلب کرنے پر حکومت پر تنقید

اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ اُمیدوار کی عمر کسی بھی طرح 65 برس سے زائد نہ ہو اور امیدوار کا تعلیم پڑھانے کا مجموعی تجربہ 20 سال ہو، جس میں سے 8 تک کا تجربہ ایڈمنسٹریشن کے عہدے کا بھی ہو۔

دلچسپی رکھنے والے اُمیدوار کو تجویز دی گئی تھی کہ وہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ سے درخواست فارم ڈاؤن لوڈ کرکے اپنی درخواستیں پوسٹ کے ذریعے 21 جون تک بھجوائیں۔

اگرچہ اشتہار میں ہر جگہ ‘امیدوار’ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا لیکن ایک جگہ پر ‘مرد’ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا تھا۔

اشتہار میں ایک جگہ واضح لکھا گیا کہ ‘مرد’ ایچ ای سی کے معیار پر پورا اترتا ہو۔

پورے اشتہار میں صرف ایک جگہ ‘مرد’ کا لفظ استعمال کیا گیا تھا جب کہ باقی ہر جگہ ‘امیدوار’ کا لفظ استعمال کیا گیا جو مرد و خواتین دونوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح انگریزی کے اشتہار میں بھی صرف ایک ہی جگہ ‘HE’ کا لفظ استعمال کیا گیا جو مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

مذکورہ اشتہار کے بعد سب سے پہلے خاتون سماجی رہنما اور سندھ یونیورسٹی جامشورو کی پروفیسر عرفانہ ملاح نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اسے صنفی تفریق قرار دیا اور ساتھ ہی وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی مینشن کیا تھا۔

عرفانہ ملاح کی ٹوئٹ کے بعد کئی دیگر لوگوں نے بھی حکومت پر سخت تنقید کی تھی اور صرف مرد حضرات سے درخواستیں طلب کرنے کو صنفی تفریق سمیت خلاف قانون بھی قرار دیا تھا۔

تاہم اب یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مذکورہ معاملے پر معافی مانگ لی۔

یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے اخبارات میں اشتہار دے کر غلطی پر معافی مانگی گئی اور واضح کیا گیا کہ اشتہار میں ‘مرد’ اور ‘HE’ کا لفظ غیر دانستہ طور پر لکھا گیا، جس پر ادارہ معذرت خواہ ہے۔

معافی نامے میں کہا گیا کہ نوکری کی درخواست کے لیے مرد و خواتین امیدوار اہل ہیں اور اشتہار کو دونوں صنفوں کے لیے سمجھا جائے۔

ساتھ ہی ادارے نے نوکری کے لیے درخواستیں جمع کروانے کی آخری تاریخ میں بھی کچھ دن کا اضافہ کردیا اور تمام مرد و خواتین امیدواروں کو تجویز دی کہ وہ درخواستیں بھجوائیں۔

بھاری معاوضے کے عوض نامناسب کرداروں کی پیش کش ہوتی ہے، ملیکا شراوت

کورلش عثمان میں 'بامسی' کی موت پر پاکستانی مداحوں کا دکھ کا اظہار

عائزہ خان کو ٹک ٹاک ویڈیو کے لیے بھارتی گانے پر پرفارمنس مہنگی پڑگئی