'اگر یاسمین راشد ملک میں علاج کرواسکتی ہیں تو شہباز شریف کیوں نہیں؟'
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد، شہباز شریف اور نواز شریف سے کہیں زیادہ بیمار ہیں لیکن ملک میں ہی علاج کروارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اور نواز شریف کو بھی ملک میں رہ کر ہی اپنا علاج کروانا چاہیے تھا۔
اسلام آباد میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران فواد چوہدری نے کہا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 400 ارب روپے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرایا جو قابل تحسین ہے۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کا ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع
انہوں نے کہا کہ ہماری عدالتوں نے پاناما کیس کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں یہ تاثر بنا کہ عدالتی نظام کرپشن کے خلاف جنگ میں حصہ ہے لیکن کچھ معاملات میں عوام کی سوچ ہے کہ نظام تاحال تبدیل نہیں ہوسکا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ’اور حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ نظام تبدیل نہیں ہوسکا، ہم نے حکومت لی ہے لیکن نظام کے خلاف ہمارے جنگ تاحال جاری ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر کی جانب سے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی درخواست پیش کی گئی اور درخواست کی اگلی ہی سماعت میں انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی تاہم اس تمام معاملات میں حکومت سے کوئی مؤقف شامل نہیں رہا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ شہباز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ ان ہزاروں قیدیوں کو حقوق کو ایک طرف رکھ دیں اور انہیں بھول جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'شہباز شریف کو وزیراعظم کے حکم پر باہر جانے سے روکا گیا'
انہوں نے مزید کہا کہ اور پاکستان میں طبقاتی نظام کو تسلیم کرلیں، قیدیوں کو جیل سے باہر علاج کرانے کا حق بھی نہیں ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ اس طرح ہمارا معاشرہ تباہ ہوجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو کہا تھا کہ تحریک چلانا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو وطن واپس لائیں کیونکہ خود اپوزیشن سمجھتی ہے کہ نواز شریف مفرر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا واضح مؤقف ہے کہ قانون کی بالادستی یکساں ہو جس میں نواز شریف خاندان کے لیے الگ اور غریب کے لیے الگ قانون نہ ہو۔
عدالت کے سامنے حکومت بھی اپنا مؤقف لے کر جائے گی، شہزاد اکبر
علاوہ ازیں اس موقع پر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ 'مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے عدالتی فیصلے کے بعد عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا ہے اور شہباز شریف کے خلاف شہزاد اکبر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں اس لیے میں یہاں 55 جلد پر مشتمل ثبوت لے کر آیا ہوں جس میں 100 سے زائد گواہان کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ جلدوں پر مشتمل دستاویزی ثبوت ریفرنس کے ساتھ عدالت میں داخل ہوچکے ہیں۔
شہزاد اکبر نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو مخاطب کرکے کہا کہ 'یہ ہیں وہ ذرائع جو آپ بتانے سے قاصر ہیں لیکن میرے پاس ہیں اور عید کے بعد ٹرائل آگے چلے گا'۔
یہ بھی پڑھیں: ایف آئی اے نے شہباز شریف کو عدالتی احکامات کے باوجود بیرون ملک سفر سے روک دیا، مریم اورنگزیب
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں جنہیں صرف نظر کردیا گیا اور اسی منی لانڈرنگ کی وجہ سے پاکستان آج فیٹف کی گرے لسٹ میں ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت شہباز شریف کی ضمانت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا سوچ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔
شہزاد اکبر نے نیب کو مشورہ دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف احتساب ادارے کو اپیل کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ ملک سے باہر جائیں گے تو اس کیس میں 14 ملزمان کا مقدمہ نہیں چل سکے گا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ پی ایس او تھے اور اب کہتے ہیں کہ میں وکیل ہوں۔
شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ آمدن سے زائد اثاثوں کا سوال ہمیشہ ایک پبلک اکاؤنٹ آفس ہولڈرز پر ہی اٹھتا ہے یہ صحافی یا عام شخص پر نہیں لگایا جا سکتا۔
خیال رہے کہ شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ سے اپنا نام ٹریول بلیک لسٹ کی فہرست سے نکلوانے کے لیے رجوع کیا تھا اور ایک بار علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی تھی۔
جس پر عدالت نے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کے لیے نام بلیک لسٹ سے نکلوانے سے متعلق دائر درخواست منظور کرتے ہوئے مشروط طور پر باہر جانے کی اجازت دی تھی۔
تاہم وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مبینہ طور پر ان کا نام 'ایک اور فہرست میں' رکھتے ہوئے انہیں ملک چھوڑنے سے روک دیا تھا۔
عدالت نے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ 'ماضی کے رویے اور سفری معلومات کے پیش نظر درخواست گزار کا نام اس وقت ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ہے'۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں حمزہ شہباز کی ضمانت منظور
فیصلے میں کہا گیا کہ تھا 'درخواست گزار کا نام بلیک لسٹ میں ہے اور موجود ہو تو بھی درخواست گزار کو ایک مرتبہ 8 مئی 2021 سے 3 جولائی 2021 تک اپنے طبی معائنے کے لیے عدالت کے سامنے کیے گئے وعدے کے تحت برطانیہ جانے سے نہیں روکا جاسکتا'۔
لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ 'شہباز شریف نے نواز شریف کے باہر جانے کے لیے یہ گارنٹی عدالت میں جمع کروائی تھی'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'اب بجائے اس کے کہ شہباز شریف کو جعلی گارنٹی دینے پر نوٹس کیا جاتا اور نواز شریف کو واپس بلایا جاتا، خود شہباز شریف کو باہر بھیجا جارہا ہے'۔