میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف احتجاج، فورسز کی فائرنگ سے 7 افراد ہلاک
میانمار میں منتخب حکومت کو ہٹانے کے 3 ماہ گزرنے کے باوجود عوام فوجی حکمرانی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں جہاں ایک بڑے مظاہرے پر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے 7 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے۔
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق میانمار میں عوامی سطح پر سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے منظم مظاہروں کے لیے 'گلوبل میانمار اسپرنگ انقلاب' کے نام سے تنظیم بنا لی ہے۔
مزید پڑھیں: میانمار کے کیرن گوریلاز کا فوجی بیس پر قبضہ، حکومت کی جوابی کارروائی
تنظیم کا کہنا تھا کہ میانمار کے عوام کے اتحاد کی آواز سے دنیا کو ہلا دو۔
مظاہرین میں شامل بدھ بکشووں نے ملک بھر میں شہروں اور قصبوں کا رخ کیا جس میں تجارتی مرکز ینگون اور دوسرا بڑا شہر منڈالے بھی شامل ہے جہاں دو مظاہرین ہلاک ہوئے۔
مقامی نیوز ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ منڈالے میں سیکیورٹی افراد سادہ لباس میں اسلحے کے ساتھ موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شہر کے وسطی قصبے ویٹلیٹ میں دو افراد ہلاک ہوئے اور شان اسٹیٹ کے مختلف علاقوں میں مزید دو افراد ہلاک ہوئے، ایک شہری شمالی شہر ہپیکانٹ میں نشانہ بنا۔
میانمار کی فوجی حکومت نے ان واقعات کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ حکومت پر فوج کے قبضے کے بعد شمال اور مغرب میں سرحدی علاقوں نسلی فسادات بھی پھوٹ پڑے ہیں، ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
میانمار کے متعدد علاقوں میں مسلح عوام اور فوج کے درمیان بھی جھڑپیں جاری ہیں اور حکومتی تنصیبات کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کو راکٹ، دھماکوں اور چھوٹے اسلحے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف تحریک کی فنڈنگ کیلئے آن لائن مہم شروع
رپورٹ کے مطابق دھماکوں کی ذمہ داری کسی گروپ کی جانب سے تسلیم نہیں کی گئی۔
مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ ینگون میں قائم بیرک کے قریب تھانے پر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں گاڑیوں کو آگ لگی تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
بعدازاں شہر کے ایک اور علاقے میں بھی دھماکے کی اطلاع ملی اور ریاست شان میں معروف کاروباری شخصیت کے گھر کے باہر دھماکا ہوا۔
سرکاری نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ 36 گھنٹوں کے دوران مجموعی طور پر 11 دھماکے ہوئے جن میں اکثر ینگون میں ہوئے۔
سیاسی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے حکومت پر قبضے کے بعد اب تک تقریباً 759 شہریوں کو قتل کیا۔
دوسری جانب فوجی حکومت نے تسلیم کیا تھا کہ اپریل کے وسط پر 248 مظاہرین ہلاک ہوئے جو کشیدگی پھیلانے میں ملوث تھے۔
اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام کا کہنا تھا کہ مظاہروں اور سول نافرمانی کی تحریکوں سے میانمار کی معیشت کو بدترین نقصان پہنچ رہا ہے 2 کروڑ 50 لاکھ شہری غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔
فوجی حکومت کا کہنا تھا کہ شکایات موصول ہوئی تھیں کہ نومبر کے انتخابات میں آنگ سانگ سوچی کی جانب سے دھاندلی کی گئی ہے جس پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور اسی وجہ سے حکومت کو گرادیا گیا۔
آنگ سانگ سوچی فروری کے شروع سے ہی زیرحراست ہیں اور 75 سالہ رہنما کے ہمراہ دیگر سیاسی رہنما بھی جیلوں میں ہیں۔