مریض کو ناقص سروسز کی فراہمی پر عدالت کا ہسپتال پر جرمانہ
کراچی: کنزیومر کورٹ نے مریض کو ‘ناقص اور خراب’ سروسز فراہم کرنے پر نجی ہسپتال کو مریض کو بطور ہرجانہ 19ہزار 750 روپے ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
کنزیومر پروٹیکشن کورٹ(جنوبی) کے جج مکیش کمار تلریجہ نے بھی نجی ہسپتال کی انتظامیہ پر 50ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے سرکاری خزانے میں 30 دن کے اندر رقم جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
مزید پڑھیں: لاہور کنزیومر کورٹ کا تاریخی فیصلہ
عدالت نے ہسپتال کو ریڈیولوجی رپورٹس یا کسی بھی طرح کی میڈیکل رپورٹس کے اجرا کے حوالے سے بھی اپنی خدمات بہتر بنانے کا حکم دیا۔
ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں سندھ کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2014 کے تحت ہسپتال انتظامیہ کو کم از کم ایک ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے جس میں تین سال جرمانے تک توسیع کی جا سکتی ہے اور کم از کم 50 ہزار جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے جس میں 2لاکھ روپے تک توسیع کی جا سکتی ہے۔
یہ ہدایات غلام رحمٰن کی جانب سے دائر شکایت پر جاری کی گئیں جو ناقص طبی سہولیات کی فراہمی پر نجی ہسپتال کی انتظامیہ کو ان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سمیت عدالت تک لے گئے تھے۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا تھا کہ یکم جون 2019 کو وہ ڈولمین مال کا دورہ کر رہے تھے جب انہیں اپنے پیٹ کے بائیں جانب شدید درد محسوس ہوا اور وہ کلفٹن میں واقع ہسپتال پہنچے جہاں انہیں داخل کرایا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ایمرجنسی وارڈ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے اپنے سیلاب کے نمونوں اور الٹراساؤنڈ کی جانچ پڑتال کے بعد ایک عارضی ریڈیولوجی رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا کہ یہ درد پیشاب کے انفیکشن کی وجہ سے تھا اور جان بوجھ کر نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ گردے میں پتھری نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: مسافر کو ذہنی اذیت دینے پر ‘کریم’ پر 50ہزار روپے جرمانہ
شکایت کنندہ نے الزام لگایا کہ ان نتائج سے مطمئن نہ ہونے کے سبب وہ طبی معائنے کے لیے ایک اور نجی ہسپتال گئے جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کے دونوں گردوں میں پتھری ہے۔
وکیل فراز فہیم نے بتایا کہ ان کے مؤکل نے مذکورہ ہسپتال کو ناقص طبی سہولیات کی فراہمی پر قانونی نوٹس جاری کیا انہوں نے ان الزامات کو رد کردیا۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ ناقص سہولیات کی فراہمی، ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ دو ہسپتالوں میں ہونے والے طبی اخراجات کے ساتھ ساتھ قانونی رہنمائی کی مد میں ہسپتال سے انہیں ڈیڑھ کروڑ روپے ہرجانہ کی ادائیگی کا حکمنامہ جاری کرے۔
دوسری طرف ، مدعا علیہ ہسپتال کے وکیل سمیر طیبہ علی اور اکشے کمار نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں ہاتھ سے لکھی جانے والی رپورٹس عام ہیں اور ایس سی پی اے 2014 کے سیکشن 14 (1) کے طے کردہ مخصوص معیارات کے مطابق مزید ٹیسٹ کے سلسلے میں عبوری رپورٹس جاری کی گئیں لیکن شکایت کنندہ مزید جانچ کے لیے نہیں آئے۔
مزید پڑھیں: صارف کی شکایت پر ‘کے الیکٹرک’ کو ایک لاکھ 20 ہزار روپے جرمانہ
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ درخواست گزار جب کے ٹیسٹ کروانے آئے تو روزے سے نہیں تھے لہٰذا علاج کے دوران کسی قسم کی طبی غفلت نہیں برتی گئی اور ناقص سروسز بھی فراہم نہیں کی گئیں۔
وکیل نے استدلال کیا کہ طبی غفلت اور برے نتائج کے درمیان فرق ہے، انہوں نے مزید کہا کہ شکایت کنندہ کی جانب سے نقصانات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس دعوے کو بھی مسترد کیا جائے۔
فیصلے میں جج نے قرار دیا کہ مدعا علیہ نے شکایت کنندہ کو ناقص اور سروسز فراہم کیں اور ایس سی پی اے 2014 کی دفعہ 13 کی خلاف ورزی کی گئی۔