افغانستان سے دہشت گردی کا خطرہ 'منتقل' ہوگیا ہے، امریکا
واشنگٹن: امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے افغانستان سے انخلا کے امریکی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملک سے دہشت گردی کا خطرہ کہیں اور منتقل ہوگیا ہے اور واشنگٹن کو چین اور وبائی امراض جیسے چیلنجز پر وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر کے حملوں کے 20 سال مکمل ہونے سے قبل امریکا، افغانستان سے تمام فوجیں واپس بلالے گا۔
گزشتہ سال طالبان کے ساتھ متفقہ ڈیڈ لائن کے چار ماہ بعد ہونے والا غیر مشروط انخلا طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات میں تعطل کے باوجود ہورہا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان سے افواج کے انخلا کے باعث عدم استحکام کشمیر تک پھیل سکتا ہے، بھارت
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنز اور امریکی جرنیلوں بشمول سابق مسلح افواج کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے مؤقف اپنایا ہے کہ یہ اقدام ملک کو تشدد کی مزید گہرائی میں ڈال سکتا ہے اور امریکا کے لیے دہشت گردی کا خطرہ بن سکتا ہے۔
انٹونی بلنکن نے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی کے ایک پروگرام میں کہا کہ 'دہشت گردی کا خطرہ کسی اور جگہ منتقل ہوچکا ہے اور ہمارے ایجنڈے میں چین کے ساتھ تعلقات سمیت، ماحولیاتی تبدیلی سے لے کر کووڈ 19 سے نمٹنے سمیت دیگر بہت اہم چیزیں ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہی وہ جگہیں ہیں جس پر ہمیں اپنی توانائی اور وسائل کی توجہ مرکوز کرنا ہوگی'۔
انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کابل میں افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ سینئر امریکی عہدیداروں سے بھی ملاقات کی اور انہیں جو بائیڈن کے اس اعلان پر بریفنگ دی کہ وہ 'ہمیشہ کی جنگ' کا خاتمہ کررہے ہیں جو 2001 کے 11 ستمبر کے حملوں کے جواب میں شروع کی گئی تھی۔
انہوں نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ امریکا نے 'وہ مقاصد حاصل کرلیے ہیں جسے ہم نے ہدف بنایا تھا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'القاعدہ نمایاں طور پر زوال کا شکار ہے، اس کے پاس اب افغانستان سے امریکا کے خلاف حملہ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے ذمے دارانہ فوجی انخلا کی حمایت کرتے ہیں، دفتر خارجہ
خیال رہے کہ پینٹاگون کے تقریبا 2 ہزار 500 فوجی افغانستان میں اس وقت موجود ہیں تاہم پہلے یہ تعداد تقریباً ایک لاکھ سے زائد تھی۔
اس کے علاوہ 9 ہزار 600 نیٹو اہلکار بھی افغانستان میں موجود ہیں، جو امریکی افواج کے انخلا کے ساتھ ملک سے نکل جائیں گی۔
خیال رہے کہ معاہدے کے برخلاف انخلا میں تاخیر کرنے پر طالبان نے امریکی افواج کے خلاف دوبارہ کارروائیاں شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔
انٹونی بلنکن نے کہا کہ 'واشنگٹن طالبان کے کسی بھی اقدام کو اس ہی وقت دیکھے گا اور کارروائی کر سکتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'لہذا اگر وہ دوبارہ کارروائی شروع کرتے ہیں تو وہ ایک لمبی جنگ میں حصہ لینے والے ہیں جو ان کے مفاد میں نہیں ہے'۔