پاکستان

پنجاب میں زرعی اراضی پر غیر قانونی رہائشی اسکیموں کے تحفظ کیلئے نیا قانون

پنجاب کمیشن فار ریگولرائزیشن آف اِرریگولر ہائوسنگ اسکیمز آرڈیننس سے 230 غیرقانونی اسکیمز کو قانونی تحفظ مل جائے گا۔

سول سوسائٹی نے حالیہ صدارتی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے بعد زرعی اراضی پر غیر قانونی ہاؤسنگ اسکیمز کو قانونی شکل یا اس کی منظوری دینے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور اور اس سے ملحقہ اضلاع میں 230 اسکیمز کو قانونی حیثیت مل جانے کے بعد سر سبز علاقوں کی حفاظت سے متعلق حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہے جائیں گے۔

مزیدپڑھیں: پیپلز پارٹی کا ملتان میں آم کے درختوں کی کٹائی کی تحقیقات کا مطالبہ

مبینہ طور پر یہ اقدام طاقتور لینڈ مافیا کو فائدہ پہنچانے کے لیے اٹھایا گیا ہے جو لاہور اور دیگر اضلاع کے آس پاس کے زرعی علاقوں میں ہزاروں ایکٹر زمین خریدنے میں کامیابی حاصل کرچکا ہے۔

لینڈ مافیا نے اراضی کے استعمال کے قواعد اور شہروں کے ماسٹر پلانوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رہائشی اسکیموں کو تیار کیا ہے یا اس کی تیاری میں مصروف ہیں۔

'پنجاب کمیشن فار ریگولرائزیشن آف اِرریگولر ہائوسنگ اسکیمز آرڈیننس 2021' کے نفاذ کے ساتھ ہی ایل ڈی اے کا دائرہ اختیار لاہور سٹی ڈسٹرکٹ سمیت چار اضلاع پر مشتمل پورے ڈویژن سے محدود ہوجائے گا۔

لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے رواں سال 19 جنوری کو لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کو ہدایت کی تھی کہ زرعی اراضی پر قائم غیرقانونی ہاؤسنگ اسکیموں میں ہر قسم کے تعمیراتی کام بند کردیں اور انہیں دی جانے والی عام معافی معطل کردی جائے۔

مزیدپڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب میں درختوں کی کٹائی پر پابندی عائد کردی

چیف جسٹس نے ایل ڈی اے کے قانونی مشیر کو متنبہ کیا تھا کہ زرعی اراضی پر تیار ہونے والی کسی بھی سوسائٹی میں ایک دیوار یا کھڑکی نہیں بننی چاہیے۔

نجی ڈیولپر اور بلڈر نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ مبینہ طور پر حکومت کی طرف سے یہ ایک بہت بڑا کھیل ہے کیونکہ زرعی اراضی پر رہائشی اسکیموں کو قانونی دائرے میں لانے کے لیے کمیشن بنانے کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا گیا اور پھر ایک اور آیا جس نے ایل ڈی اے کا کنٹرول انتہائی محدود کردیا۔

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ سب کچھ بہت تیزی سے کیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ کچھ بہت ہی طاقتور لوگ غیر قانونی رہائش کی اسکیمیں چاہتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ زرعی اراضی پر موجودہ ایل ڈی اے اور ماحولیاتی قوانین، زمینی استعمال کے قواعد و ضوابط اور آئین پاکستان میں بیان کردہ بنیادی حقوق کے تحت رہائشی اسکیمیں تیار نہیں کی جا سکتیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کہاں ہیں جو ملک کے سر سبز علاقوں کی حفاظت کی باتیں کرتے تھے؟۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت حیرت کی بات ہے کہ اگر آپ کے پاس رہائشی اراضی کی قیمت کے 2 فیصد کے برابر رقم ہے تو آپ زرعی علاقوں میں بننے والی اسکیم کو قانونی حیثیت دے سکتے ہیں۔

صرف لاہور ڈویژن میں 600 سے زائد غیرقانونی رہائشی اسکیمیں ہیں اور رواں سال جنوری میں یہ تعداد 576 تھی۔

600 اسکیموں میں ماسٹر پلان، قوانین ، قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاہور، قصور، ننکانہ صاحب اور شیخوپورہ اضلاع کے سرسبز علاقوں میں 230 منصوبے تیار یا قائم کیے جارہے ہیں۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے ایل ڈی اے کے وائس چیئرمین ایس ایم۔ عمران نے کہا کہ زیادہ تر غیر قانونی رہائشی اسکیمیں زرعی علاقوں میں ہیں جہاں ماسٹر پلانز اور ہاؤسنگ اسکیموں کے ضوابط، ماحولیات اور دیگر متعلقہ قوانین کے تحت ایسے منصوبوں کی اجازت نہیں ہوتی۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ عدالتوں میں متعدد مرتبہ زیر بحث آیا جب ایل ڈی اے کے پاس ان کو منظور کرنے یا قانونی حیثیت دینے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال تقاضہ کرتی ہے کہ تمام غیر قانونی اسکیموں کا جائزہ لیا جائے اور عدالتی ہدایات کے تحت کمیشن تشکیل دیا جائے۔

وزیرِ خزانہ کے عہدے پر رسہ کشی کا ماجرہ کیا ہے؟

فواد چوہدری کا رانا ثنااللہ کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کرانے کا اعلان

گوادر اراضی اسکینڈل، نیب نے 6 ملزمان کےخلاف ریفرنس دائر کردیا