جنوبی امریکی ملک چلی کی وزارت صحت نے بتایا کہ تحقیق میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 25 لاکھ کو ویکسین کی دونوں خوراکیں جبکہ 15 لاکھ کو 2 فروری سے یکم اپریل کے دوران ایک خوراک دی گئی تھی۔
ویکسین کی دوسری خوراک دینے کے 14 دن بعد بیماری کی تشخیص کو کورونا کیسز میں شمار کیا گیا تھا۔
کورونا ویک کو متعدد ممالک میں استعمال کیا جارہا ہے اور چلی کی وزارت صحت کے مطابق اس کے استعمال سے کورونا سے ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 85 فیصد، آئی سی یو میں پہنچنے کا خطرہ 89 فیصد اور موت کا امکان 80 فیصد کم ہوجاتا ہے۔
یہ کسی بھی ویکسین کے حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے، اب تک جو تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہیں وہ ہزاروں افراد کے ایسے محدود گروپس تک محدود ہیں جن میں ویکسینز کی افادیت اور تحفظ کی جانچ پڑتال کے لیے آزمائش کی گئی تھی۔
چلی، جنوبی امریکا میں کووڈ ویکسی نیشن میں دیگر ممالک سے آگے ہے جہاں کی 40 فیصد آبادی کو ویکسین کی ایک خوراک دی جاچکی ہے جبکہ 27 فیصد کو دونوں خوراکیں دی جاچکی ہیں۔
چلی نے سینوویک سے آئندہ 3 سال کے دوران کورونا ویک کی 6 کروڑ خوراکیں خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جبکہ وہاں فائزر کی تیار کردہ ویکسین کو بھی استعمال کیا جارہا ہے، تاہم 90 فیصد افراد کو کورونا ویک کا استعمال کرایا گیا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین کے استعمال سے 70 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے ہسپتال میں داخلے کی شرح میں بہت تیزی سے کمی آئی۔
کورونا ویک کی افادیت کے حوالے سے برازیل میں رواں ماہ ہی نتائج سامنے آئے تھے جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ کووڈ 19 کی علامات والی بیماری سے 50.7 فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے۔
اسی طرح علاج کی ضرورت والے کیسز کی روک تھام میں 83.7 فیصد جبکہ معتدل اور سنگین کیسز کی روک تھام میں 100 فیصد مؤثر ہے۔
انڈونیشیا میں بھی ویکسین کو ایمرجنسی استعمال کی منظوری دی جاچکی ہے اور وہاں عبوری ڈیٹا میں اسے 65 فیصد تک مؤثر قرار دیا گیا ہے۔