پاکستان

لاہور: شریف خاندان کی رہائش گاہ کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے کا حکم

وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے زمین کے ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے چند ریونیو عہدیداروں کو اغوا کیا تھا، مریم اورنگزیب

لاہور کی مقامی عدالت نے پنجاب حکومت کے خلاف شریف خاندان کی جائیداد کی ملکیت سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے ریونیو ریکارڈ تبدیل کرنے کے کیس میں جاتی امرا رہائش گاہ کی موجودہ حیثیت برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مرحوم بھائی عباس شریف کے صاحبزادے یوسف عباس اور دیگر 3 بچوں نے اپنی دادی مرحومہ شمیم اختر کے قانونی وارث ہونے کی وجہ سے جائیداد کے مالک کے طور پر ظاہر کرنے کے لیے کیس دائر کیا۔

اس مقدمے میں 9 سرکاری افسران کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار نے نواز شریف، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور ان کی بہن کوثر یوسف کو بطور رسمی مدعا علیہان قرار دیا اور کہا کہ وہ مدعی کے طور پر قانونی چارہ جوئی میں شامل ہونے سے قاصر ہیں۔

مزید پڑھیں: جاتی امرا اراضی کیس، 'نیب مریم نواز کو گرفتاری سے 10 روز قبل مطلع کرے'

مقدمے میں کہا گیا کہ درخواست گزار اور مدعی میاں محمد شریف کی اہلیہ شمیم اختر کے قانونی وارث ہیں اور شمیم اختر 1993 اور 1996 میں دو رجسٹرڈ فروخت ڈیڈز کے ذریعے ضلع لاہور کی تحصیل رائیونڈ کے علاقے مانک میں 241 کنال اور 10 مرلہ کی پراپرٹی کی مالک تھیں۔

شمیم اختر 22 نومبر 2020 کو لندن میں وفات پاگئی تھیں، انہوں نے مدعا علیہان اور درخواست گزاروں کو اپنا قانونی وارث قرار دیا تھا۔

مقدمے میں دعویٰ کیا گیا کہ مدعی اور درخواست گزار جاتی امرا رائے ونڈ کے مشترکہ مالکان ہیں، جس کا مجموعی رقبہ 1580 کنال ہے، جس میں سیل ڈیڈ میں مذکور اراضی بھی شامل ہے۔

کل 1580 کنال میں سے 1180 زرعی اراضی ہے جبکہ باقی 400 کنال حویلیوں پر مشتمل ہیں جو مدعا علیہان نے اس وقت تعمیر کرائی تھیں جب انہوں نے اس زمین کو خریدا تھا۔

مدعا علیہان کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ حامد افتخار پنوں نے استدلال کیا کہ حکام، موجودہ حکومت کے کہنے پر غیر قانونی طور پر اس زمین کے ملکیت کے ریکارڈ کو تبدیل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا واحد مقصد تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ان کے پرامن قبضے میں مداخلت کرکے مدعیوں کے اہل خانہ کو اذیت دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کو مریم نواز کی گرفتاری سے روک دیا گیا، عبوری ضمانت 12 اپریل تک منظور

وکیل نے کہا کہ مدعا علیہان نے مرحومہ شمیم اختر کی وراثت میں ہونے والے تغیر کی تصدیق کے لیے عہدیداروں سے رجوع کیا تھا تاہم ان کے حق کی واضح طور پر تردید کردی گئی ہے کیونکہ عہدیداروں کی جانب سے کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ حکومت کو مدعا علیہان کی ملکیت اور قبضے میں خلل ڈالنے سے باز رکھیں۔

دلائل سننے کے بعد سول جج سید فہیم الحسن شاہ نے مشاہدہ کیا کہ اس دستاویز سے متعلق دستاویزاتی ثبوت نے دعویٰ مقدمہ سے منسلک کیا ہے جس میں مدعی کا مقدمہ ایک اچھی دلیل والا معاملہ بن گیا ہے اور مدعا علیہان کو 27 اپریل کے لیے نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں۔

مقدمے کے فریقین میں بورڈ آف ریونیو کے سینئر رکن، چیف سیکریٹری، چیف سیٹلمنٹ کمشنر، لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل، لاہور ڈویژن کے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، رائیونڈ کے اسسٹنٹ کمشنر، تحصیلدار اور رائیونڈ کے پٹواری شامل ہیں۔

دریں اثنا پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ کوئی بھی توقع نہیں کر سکتا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اس قدر گر جائیں گے کہ شریف برادران کے گھر کو منہدم کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔

سابق وزیر اطلاعات نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطا تارڑ کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے زمین کے ریکارڈ میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے چند ریونیو عہدیداروں کو اغوا کیا تھا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ یہ (شریف برادران کی رائیونڈ رہائش گاہ) ایک سرکاری زمین ہے۔

مزید پڑھیں: نیب کو مریم نواز کی گرفتاری سے روک دیا گیا، عبوری ضمانت 12 اپریل تک منظور

انہوں نے کہا کہ 'شہزاد اکبر اپنے سیاسی مخالفین کو پٹواری کہتے تھے اور اب انہوں نے پٹواریوں کو یرغمال بنا لیا ہے، زیر بحث زمین شریف خاندان کی ملکیت میں رہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس سلسلے میں شریف خاندان کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا، اگر عمران خان میں تھوڑی بھی شرم ہے تو وہ دن کی روشنی میں رائیونڈ کی رہائش گاہ کو منہدم کرنے کی جرات کریں، ہمارے پاس حکومت کے شریف برادران کی رہائش گاہ منہدم کرنے کے منصوبے کے خلاف حکم امتناع ہے'۔

عطا تارڑ نے کہا کہ جب تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیاسی محاذ پر مقابلہ کرنے میں ناکام رہی تو اس نے اسے ذاتی لڑائی میں تبدیل کردیا۔

سابق جنرل حمید گل کے بیٹے کیخلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ

پاکستان میں مقیم 14 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تصدیق کی مہم کا آغاز

طیارے میں کووڈ کے پھیلاؤ کا خطرہ کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟