پاکستان

حکومت کا تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

ہم پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کرنے کیلئے تیارتھے، ٹی ایل پی ایسا مسودہ لانا چاہتی تھی جس سے انتہا پسندی کا تاثر جاتا، شیخ رشید

ملک کے مختلف شہروں میں 3 روز سے جاری پُر تشدد احتجاج کے بعد وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ پابندی کی قرارداد حکومت پنجاب کی جانب سے آئی تھی جس کی سمری منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کو ارسال کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جو معاہدہ کیا اس پر قائم تھے اور ہیں لیکن جس مسودے کا تقاضا وہ کررہے تھے وہ اس ملک کو دنیا میں انتہا پسند ملک کا نام دیتا، جس کے لیے ہم تیار نہیں تھے، ہم شائستہ اور پارلیمانی زبان میں وہ قرار داد لا رہے تھے جو انہوں نے یکسر مسترد کردی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کا احتجاج تیسرے روز بھی جاری

شیخ رشید نے کہا کہ احتجاج کے دوران ایمبولینسز کو روکا گیا، کووِڈ 19 کے مریضوں کے لیے منگوائی گئی آکسیجن روکی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جی ٹی روڈ، موٹرویز بحال ہیں، اس پر تشدد احتجاج کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ 340 زخمی ہوئے، اس کے علاوہ مظاہرین نے کچھ اہلکاروں کو اغوا کر کے ہم سے مطالبات کیے جو اب واپس اپنے تھانوں کو پہنچ چکے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ سوشل میڈیا پر سڑکیں بلاک کرنے اور بد امنی کے پیغامات دینے والوں کا قانون پیچھا کررہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی اس بات پر قائم ہیں کہ قومی اسمبلی میں ناموس رسالت سے متعلق ایسا بل پیش کریں جس سے نبی ﷺ کا جھنڈا بلند ہو۔

انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ٹی ایل پی سے متعدد مرتبہ مذاکرات کیے گئے اور جب یہ اجلاس میں آتے تھے تو گھروں میں پیغامات ریکارڈ کروا کر آتے ہیں کہ فلاں فلاں سڑک بند کرنی ہے۔۔

مزید پڑھیں:ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی، اعلیٰ قیادت کیخلاف دہشت گردی اور قتل کا مقدمہ

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہماری آخری حد تک یہ کوشش رہی کہ ہم باہمی اتفاق رائے سے اسمبلی میں قرار داد پیش کرنے کے لیے ان کو راضی کرلیں لیکن ہماری کوششیں ناکام ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام کوششوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہی بھی تھی کہ وہ ہر صورت میں فیض آباد چوک اسلام آباد آنا چاہتے تھے اور ان کی بڑی لمبی تیاری تھی جسے روکنے کے لیے پولیس نے بہت زبردست کام کیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ جو لوگ اس جماعت کا میڈیا چلا رہے ہیں میں ان سے کہوں گا سرینڈر کردیں، آپ ایک دن، 2 دن 4 دن میڈیا چلالیں گے لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سوشل میڈیا کے ذریعے اس حکومت کو مسائل سے دوچار کرسکتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو مسائل سے دوچار کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسا مسودہ چاہتے ہیں کہ جس سے نبی ﷺ کا جھنڈا بلند ہو لیکن یہ جو مسودہ چاہ رہے تھے اس سے دنیا میں ہمارے لیے انتہا پسند مملکت کا تاثر جاتا اور جب بات مذاکرات پر ہوتی ہے تو گنجائش رکھی جاتی ہے کہ ریاستی معاملات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:مختلف مقامات پر ٹی ایل پی کا احتجاج، تشدد سے پولیس کانسٹیبل ہلاک، املاک نذر آتش

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ٹی ایل پی والے ایسا مسودہ چاہتے تھے کہ تمام یورپی ممالک کے لوگ ہی یہاں سے فارغ ہوجائیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ انہوں نے بہت تیاری کر رکھی تھی اور حکمت عملی بنائی ہوئی تھی، آج ہم نے انہیں عطیات دینے والوں کی بھی بازپرس کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ مذاکرات پر آنے سے قبل سوشل میڈیا کے لیے تمام تر پیغامات ریکارڈ کروا کر آتے تھے لیکن اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ تحریک لبیک پر پابندی لگادی جائے۔

شیخ رشید نے کہا کہ جو مقدمات درج ہیں ان پر قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، عدالتیں سب کے لیے کھلی ہیں جو چاہے ان سے رجوع کرے۔

ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر

ٹی ایل پی نے فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر رواں سال فروری میں فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔

حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔

جس پر ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

اس حوالے سے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں ٹی ایل پی کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں گزشتہ روز گرفتار کرلیا تھا۔

واضح رہے کہ سعد رضوی ٹی ایل پی کے مرحوم قائد خادم حسین رضوی کے بیٹے ہیں۔

ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے جنہوں نے بعض مقامات پر پر تشدد صورتحال اختیار کرلی۔

جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے اور سڑکوں کی بندش کے باعث لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

رمضان المبارک میں بازار سحری سے شام 6 بجے تک کھلے رہیں گے، این سی او سی

چینی اسکینڈل: اگر کسی کو تحفظات ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں، عمران خان

ٹی ایل پی کا احتجاج تیسرے روز بھی جاری