درگاہ لعل شہباز قلندر پر تصادم، پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی
دادو: سیہون میں لعل شہباز قلندر کے مزار پر پولیس اور زائرین کے مابین ہونے والے تصادم کے نتیجے میں 7 پولیس اہلکار جبکہ 40 عقیدت مند زخمی ہوگئے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کچھ روز قبل حکومت سندھ نے کورونا وائرس کے باعث صوبے کے تمام مزارات بند رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم عظیم صوفی بزرگ کے جمعرات سے شروع ہونے والے 769ویں عرس میں شرکت کے لیے ہزاروں زائرین پہلے ہی سیہون پہنچ چکے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سیہون: لعل شہباز قلندر کی غیر متنازع سلطنت
مزار کی بندش کے سرکاری اعلان کو نظر انداز کرتے ہوئے سیکڑوں زائرین سیہون اور ارد گرد کے علاقوں میں قیام پذیر تھے جن کی اکثریت دیگر صوبوں سے آئی تھی اور دوپہر سے ہی مزار کے بند دروازے کے باہر جمع ہونا شروع ہوگئے۔
جامشورو پولیس کے اہلکار اور افسران مزار کے ارد گرد تعینات تھے اور مسلسل زائرین کو بتاتے رہے کہ مزار کھلنے کا کوئی امکان نہیں اس لیے واپس چلے جائیں۔
تاہم مزار کے باہر مجمع بڑھتا گیا اور شام 6 بجے کے قریب زائرین کی بڑی تعداد نے دھاوا بول کر ایک دروازہ توڑ دیا اور اندر داخل ہونے کی کوشش کی سیکڑوں دیگر افراد نے بھی ان کی پیروی کی جس سے صورتحال مزید خراب ہوگئی۔
جب پولیس فورس نے انہیں مزار سے نکالنے کی کوشش کی تو ان پر پتھراؤ کیا گیا، پولیس نے لاٹھی چارج کیا لیکن زائرین کے ہجوم کو قابو نہ کرسکی۔
مزید پڑھیں: درگاہ لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکا، 70 افراد جاں بحق
بعدازاں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد کے زخمی ہونے اور صورتحال بگڑنے پر دادو سے مزید 200 پولیس اہلکاروں کی کمک منگوائی گئی اور بالآخر امن و عامہ بحال کرنے کے لیے رینجرز سے پولیس کی معاونت کی درخواست کی گئی۔
سید عبدالطیف شاہ انسٹیٹوٹ آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر معین الدین صدیقی نے کہا کہ زخمیوں میں 16 کے زخم شدید نوعیت کے ہیں جس میں 7 پولیس اہلکار ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
علاقے سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق تصادم کے دوران 3 موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگادی گئی۔
رات گئے تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مزار کے اطراف میں صورتحال کشیدہ تھی کیوں کہ قابل ذکر تعداد میں عقیدت مند علاقے سے جانے کے لیے تیار نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: قلندر لعل شہباز کا 766 واں عرس
جامشورو ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) فرید الدین مصطفیٰ نے عقیدت مندوں اور دیگر افراد سے اپیل کی کہ مزار صوبائی حکومت کی ہدایت کے مطابق بند رہے گا اس لیے پر امن طور پر اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔
دوسری جانب پولیس حکام اور مزار انتظامیہ کا کہنا تھا کہ پہلے مشتعل عقیدت مندوں نے درگارہ کے سنہرے گیٹ کی طرف جانے کا راستہ بنانے کے لیے دباؤ ڈالا لیکن پولیس نے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعدازاں انہوں نے پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا اور سنہرے گیٹ تک پہنچنے کے لیے پارکنگ کا دروازہ توڑ ڈالا اور اس سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں بھی عقیدت مندوں کی بھگدڑ دیکھی جاسکتی ہے۔