لاہور ہائیکورٹ: شہباز شریف کی اہلیہ کو اشتہاری قرار دینے کا حکم کالعدم
لاہور ہائیکورٹ نے منی لانڈرنگ کیس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
ساتھ ہی عدالت نے نصرت شہباز کو پلیڈر (نمائندہ) مقرر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نصرت شہباز صحتیاب ہوکر عدالتی کارروائی میں شامل ہوں، نمائندہ نصرت شہباز کو ہر سماعت کی کارروائی سے آگاہ کرنے کا بھی پابند ہو گا۔
جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اشتہاری قرار دینے کے خلاف نصرت شہباز کی درخواست پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اشتہاری قرار
سماعت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے اسپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری جبکہ نصرت شہباز کی جانب سے ایڈووکیٹ امجد پرویز عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیے۔
شہباز شریف کی اہلیہ کی دائر کردہ درخواست میں چیئرمین نیب اور احتساب عدالت کے جج کو فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ نصرت شہباز کو منی لانڈرنگ ریفرنس میں ملزمہ بنایا گیا ہے، درخواست گزار 66 سالہ ضعیف خاتون ہیں اور متعدد امراض میں مبتلا ہیں۔
درخواست میں بتایا گیا کہ انہیں جنوری 2019 میں علاج کی غرض سے برطانیہ جانا پڑا تھا بیرون ملک جانے تک نیب نے کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا تھا۔
مزید پڑھیں:منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی بیٹی، داماد اور بیٹا اشتہاری قرار
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت میں حاضری سے استثنی کی درخواست بھی دائر کی تھی جو خارج کر دی گئی جبکہ حاضری سے استثنٰی کے لیے میڈیکل سرٹیفیکیٹس بھی عدالت میں پیش کئے تھے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ احتساب عدالت کو حاضری سے استثنی دینے کی درخواست خارج کرنے اور ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت نے نصرت شہباز کے ٹرائل میں شامل ہونے کی رضامندی کو بھی پذیرائی نہیں دی، نصرت شہباز جان بوجھ کر ٹرائل سے غیر حاضر نہیں بلکہ وہ بیماری کی وجہ بیرون ملک ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ احتساب عدالت کا نصرت شہباز کی حاضری سے استثنٰی کی درخواست خارج کرنے کا حکم کالعدم کیا جائے، ملزمہ نصرت شہباز کی عدم پیشی نصرت شہباز کے خلاف جاری کارروائی بھی کالعدم کی جائے اور بیماری کی بنیاد پر نصرت شہباز کو حاضری سے استثنی دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کو اشتہاری قرار دینے کے اشتہارات آویزاں
مذکورہ درخواست کی سماعت میں پراسیکیوٹر نیب سید فیصل رضا بخاری نے عدالت میں کہا کہ 3 شرائط مان لیں تو نصرت شہباز کی درخواست منظوری پر کوئی اعتراض نہیں۔
شرائط کی تفصیلات بتاتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نصرت شہباز کا نمائندہ ہر تاریخ پر عدالت میں پیش ہو، ہر سماعت کی کارروائی سے ملزمہ کو آگاہ کرے اور نصرت شہباز صحتیابی کے بعد عدالت میں پیش ہونے کی پابند ہوں۔
جس پر ملزمہ کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یاد رہے کہ 8 دسمبر 2020 کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف کے خاندان کے خلاف دائر منی لانڈرنگ ریفرنس میں ان کی اہلیہ نصرت شہباز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔
منی لانڈرنگ ریفرنس
خیال رہے کہ 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کی اہلیہ، دو بیٹوں، بیٹیوں اور دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔
اس ریفرنس میں مجموعی طور پر 20 لوگوں کو نامزد کیا گیا جس میں 4 منظوری دینے والے یاسر مشتاق، محمد مشتاق، شاہد رفیق اور احمد محمود بھی شامل ہیں۔
تاہم مرکزی ملزمان میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت، ان کے بیٹے حمزہ شہباز (پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر)، سلمان شہباز (مفرور) اور ان کی بیٹیاں رابعہ عمران اور جویریہ علی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی بیٹی، داماد اور بیٹا اشتہاری قرار
ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔
اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔