میانمار میں فوجی اقتدار کے خلاف 'کچرے کی ہڑتال'، سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر
سماجی کارکنوں کی جانب سے فوجی اقتدار کے خلاف 'کچرے کی ہڑتال' کے بعد میانمار کے مرکزی شہر کی سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر لگ گئے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق میانمار میں یکم فروری کو فوج نے حکومت کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے فوجی حکومت کے خلاف احتجاج میں 500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: میانمار: خونریزی پر سوگ، مقتولین کی آخری رسومات کے دوران فوج کی فائرنگ
سیاسی قیدیوں کی امدادی انجمن نے بتایا کہ پیر کو ہلاک ہونے والے 14 عام شہریوں میں سے 8 ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں ہوئیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ علاقے میں سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف پیر کے روز معمول کے مقابلے میں بھاری اسلحے کا استعمال کیا جس پر مظاہرین ریت کے تھیلوں کی رکاوٹوں کے پیچجھے چھپنے پر مجبور ہو گئے، فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ یہ کون سا ہتھیار تھا لیکن خیال کیا جاتا جا رہا ہے کہ یہ کا دستی بم لانچر ہو سکتا ہے۔
سرکاری ٹیلی ویژن نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے 'پرتشدد دہشت گرد گروہ' کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کیا۔
جنوبی ڈاگن کے ایک رہائشی نے بتایا کہ منگل کے روز سیکیورٹی فورسز رات گئے علاقے میں کریک ڈاون کررہی تھیں جس سے مزید ہلاکتوں کا خدشہ پیدا ہوا ہے۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انکشاف کیا کہ ساری رات فائرنگ ہوتی رہی۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: آمریت کے خلاف مظاہرین پر فورسز کی فائرنگ، مزید 91 افراد ہلاک
رہائشیوں کو صبح کے وقت گلی سے ایک بری طرح سے جلی ہوئی لاش بھی ملی البتہ، انہوں نے کہا کہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس شخص کے ساتھ کیا ہوا ہے اور فوج لاش کو اپنے ساتھ لے گئی۔
سوشل میڈیا پر میڈیا رپورٹس اور تصاویر کے مطابق ملک بھر کے متعدد دیگر شہروں میں ہزاروں مظاہرین نکل آئے تاہم تاحال کہیں سے بھی تشدد کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے میانمار کے جرنیلوں سے مظاہرین کا قتل عام اور ان پر جبر روکنے کی اپیل کی۔
فوجی حکومت کے خلاف ہڑتالوں کی سول نافرمانی تحریک نے معیشت کے بڑے حصے کو مفلوج کردیا ہے اور اس سلسلے میں مظاہرین نے ایک نیا حربہ آزماتے ہوئے مرکزی شاہراہوں، سڑکوں اور چوراہوں پر کچرا چھوڑنے کے لیے مہم چلانے کی شروع کردی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹر پر لکھا گیا کہ یہ کچرا ہڑتال جنتا کی مخالفت کرنے کے لیے، ہر کوئی اس میں شامل ہوسکتا ہے۔
ینگون میں سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر میں کچرے کے ڈھیر دکھائے گئے۔
مزید پڑھیں: یورپی یونین نے میانمار کے جنرلز سمیت فوجی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں
یہ مہم پیر کے روز کیے گئے اس اعلان کی مخالفت میں شروع کی گئی جس میں ینگون کے کچھ محلوں میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اعلان کرتے ہوئے لوگوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کچرے کو صحیح طریقے سے تلف کریں۔
نوبل انعام یافتہ ، آنگ سان سوچی کی زیر سربراہی منتخب حکومت کے خاتمے کے خلاف دو ماہ سے جاری مظاہروں میں کم از کم 510 شہری مارے گئے اور ایک دہائی کی جمہوری حکومت کے بعد اب مظاہرین فوجی حکومت کے خاتمے کا مطالبے کیا ہے۔
ہفتے کو ان مظاہروں کا سب سے خونخوار دن ثابت ہوا تھا جب ہلاک ہونے والوں کی تعداد 141 ہو گئی تھی۔
مظاہروں کے پیچھے ایک اہم گروہ جنرل اسٹرائیک کمیٹی برائے قومیتوں نے پیر کے روز نسلی اقلیتی قوتوں کو لکھے گئے کھلے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ وہ فوج کے 'غیر منصفانہ جبر' کا مقابلہ کرنے والوں کی مدد کریں۔
اس مطالبے کے بعد میانمار کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی، اراکان آرمی اور تائنگ نیشنل لبریشن آرمی سمیت تین گروپوں نے منگل کے روز مشترکہ بیان میں مطالبہ کیا کہ فوج مظاہرین کی ہلاکتوں کا سلسلہ بند کرے اور سیاسی طریقے سے مسائل حل کرے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کے خلاف ایک لاکھ سے زائد افراد کا احتجاج
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ اپنے دفاع کے لیے نسلی گروہوں کے میانمار کے ساتھ شامل ہونے والے تمام گروہوں کے ساتھ تعاون کریں گے۔