پیپلز پارٹی کا عثمان بزدار کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے اپنے منصوبے کا دفاع
لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پنجاب میں تبدیلی لانے کے اپنے منصوبوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صوبہ عمران خان کی زیر قیادت حکومت کا سب سے کمزور حصہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی پنجاب چیپٹر کے جنرل سیکریٹری چودھری منظور نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ 'اگر پنجاب حکومت کو کسی طرح سے ہٹا دیا گیا تو عمران خان کی (وفاقی) حکومت ملک پر اپنی گرفت برقرار نہیں رکھ سکے گی'۔
پیپلز پارٹی کے اس منصوبے کا انکشاف ہفتے کے روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کیا جن کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے بارے میں ایک معاہدے کی پیش کش کی تھی۔
مزید پڑھیں: ‘افسوس ہے ایک چھوٹے سے عہدے کے لیے باپ سے ووٹ لیے’
ان کا کہنا تھا کہ 'صرف 7 ممبران پر مشتمل پیپلز پارٹی (پنجاب اسمبلی کے 371 کی اسمبلی میں) صوبے میں اپنا وزیر اعلیٰ نہیں لاسکتی ہے لہذا مسلم لیگ (ن) یا کوئی دوسرا دعویدار جو وہاں اکثریت رکھتا ہے موجودہ نااہل حکومت سے نجات حاصل کرنے کا آپشن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول، شوگر اور آٹا مافیا حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے عوام کو لوٹ رہے ہیں اور اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) اس حکومت کے خلاف کام نہ کرکے عمران خان کا ساتھ دے رہی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے پیپلز پارٹی پر یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کی کامیابی کے لیے حکومتی ممبران کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے معاہدہ کرنے کے الزام کے جواب میں چوہدری منظور نے کہا کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کو جب ضمانت دی گئی اور جہاں شہباز شریف کی ضمانت بھی منظور ہونے کے قریب ہے، ایسے میں ان کی جماعت نے کبھی مسلم لیگ (ن) پر کسی معاہدے کا الزام نہیں لگایا۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز اپنی پارٹی کے اندر جو چاہیں کرسکتی ہیں لیکن اتحادیوں کے لیے انہیں اپنا لہجہ 'معقول' رکھنا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: 'مریم نواز کو پی ڈی ایم کا مستقبل اندھیرے میں نظر آرہا ہے'
پیپلز پارٹی رہنما نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ اگر مسلم لیگ (ن) اپوزیشن پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اسلام آباد کی جانب منصوبہ بند لانگ مارچ کے ساتھ اسمبلیوں سے استعفے دینے کے لیے پرعزم ہے تو اسے اپوزیشن اتحاد کے 16 مارچ کے اجلاس کے دوران اس بارے میں بات کرنی چاہیے تھی۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کے سامنے تنقید کے بجائے پی ڈی ایم پلیٹ فارم پر پی پی پی یا کسی دوسری اپوزیشن جماعت کے ساتھ پیدا ہونے والے مسائل پر تبادلہ خیال کریں۔
انہوں نے اپنی پارٹی کو پی ڈی ایم کے قیام کا سہرا دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے پوری کوشش کرے گی۔