پاکستان

ہاؤسنگ اسکیمز کے باعث 'آم کے باغات کا شہر' تباہی کے دہانے پر

آم کے باغات کاٹنے اور زرعی اراضی کی تباہی سے مقامی ماحولیاتی نظام تباہ ہونے کا امکان ہے، رپورٹ

پورا ملک بالخصوص پنجاب آلودگی اور اسموگ کی لپیٹ میں ہے جہاں بڑے شہروں اور اس کے آس پاس کے سبز علاقوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے ایسے میں نجی رہائش کی اسکیموں کا عفریت باغات پر مشتمل زرعی اراضی کو ختم کررہا ہے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق چند روز قبل سوشل میڈیا پر تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں آم کے درختوں کو نجی ہاؤسنگ اسکیم کے لیے کاٹا جارہا تھا۔

مزیدپڑھیں: پیپلز پارٹی کا ملتان میں آم کے درختوں کی کٹائی کی تحقیقات کا مطالبہ

اس پر بالخصوص ماحولیات کے تحفظ سے وابستہ سرگرم سماجی رہنماؤں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ مذکورہ رہائشی اسکیم کو مبینہ طور پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیار کیا جارہا ہے۔

اگرچہ ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی (ای پی اے) کے معائنہ کاروں نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے مجوزہ سائٹ کو ناکارہ قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ آم کے باغات کو گرنے اور زرعی اراضی کی تباہی ماحولیاتی نظام کو تباہ اور ماحول کو نقصان پہنچائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: خان صاحب، بس 10 ارب درخت لگانے کا وعدہ مت بھولیے گا

ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیولپمنٹ ملتان نے رپورٹ 12 فروری کو ماحولیاتی تحفظ ایجنسی پنجاب کو بھیجی تھی۔

رپورٹ کے مطابق انسپکٹرز کی ایک ٹیم جس میں فیاض حسین اور ظفر رحمان شامل ہیں، نے نجی ہاؤسنگ اسکیم کے فیز II کے لیے مجوزہ سائٹ کا معائنہ کیا۔

اس میں کہا گیا کہ دستاویزات کے مطابق محمد اسلم سندھو ‘منصوبے کا روح و رواں ہے’ لیکن اس کے نام پر کوئی قانونی دستاویز / زمین کی ملکیت دستیاب نہیں ہے۔

رپورٹ کے مطابق لہذا اراضی کی قانونی ملکیت پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدپڑھیں: شجرکاری مہم: آنے والی نسلوں کیلئے ضروری ہے ہم اپنا طرز زندگی تبدیل کریں، وزیراعظم

انہوں نے بتایا کہ تقریباً 12 ایکڑ رقبے پر آم کا باغ کاٹ دیا گیا اور ادھر درخت کی کٹی ہوئی لکڑیاں موجود ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آم کا باغ 150 ایکٹر پر محیط ہے اور کمپنی مزید زرعی اراضی کو ختم کردے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ زرعی نوعیت کا ہے اور زرخیز ہے۔

آم کے درختوں کو گرانے کے بعد نجی ہاؤسنگ اسکیم کا فیز 2 قائم کیا جارہا ہے بلکہ بوسن روڈ پر اسی ہاؤسنگ اسکیم کے فیز 1 اور ایکسٹینشن تعمیر کیا گیا اور وہ فروخت بھی ہوگئے جہاں ہزاروں آم کے درخت کاٹ دیے گئے۔

مزیدپڑھیں: ملک کا مستقبل 5 سال کی منصوبہ بندی سے نہیں بنتا، وزیراعظم

رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ‘آم کے باغات کاٹنے اور زرعی اراضی کی تباہی سے مقامی ماحولیاتی نظام تباہ ہونے کا امکان ہے اور یہ مقامی اور قومی سطح پر معاشرتی ماحولیاتی نقصان کو پہنچائے گا’۔

اس میں مزید کہا گیا کہ موجودہ سائٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی ترقی کے لیے موزوں نہیں ہے تاہم اس کے حامی اس موضوع کے منصوبے کے لیے متبادل سائٹ کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

ایف بی آر نے پروفائل جمع کروانے کی تاریخ میں 30 جون تک کی توسیع کردی

حکومت کی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کیلئے ایک ارب روپے کی منظوری

ورلڈ بینک اور پاکستان کے مابین ایک ارب 36 کروڑ ڈالر کی امداد کا معاہدہ