سنجرانی چیئرمین اور مرزا آفریدی ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب، گیلانی اور عبدالغفور کو شکست
اسلام آباد: حکومتی امیدوار صادق سنجرانی ایک بار پھر سینیٹ کے چیئرمین جبکہ مرزا محمد آفریدی ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوگئے جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے امیدواروں یوسف رضا گیلانی اور مولانا عبدالغفور حیدری کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ایوان بالا کے 98 اراکین نے ووٹ دیئے تھے، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو 48 ووٹ ملے جبکہ ان کے مد مقابل یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے اور ان کو ملنے والے 7 ووٹوں کو مسترد کردیا گیا اور ایک ووٹ دونوں اُمیدواروں کے لیے نشان زدہ ہونے پر مسترد ہوا۔
علاوہ ازیں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی نشست کے لیے مرزا محمد آفریدی کو 54 ووٹ ملے جبکہ عبدالغفور حیدری کو 44 ووٹ ملے اور کوئی بھی ووٹ مستر نہیں ہوا۔
چیئرمین سینیٹ کا انتخاب
قبل ازیں پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ مسترد ہوئے ہیں کیونکہ ان میں خانے کی جگہ یوسف رضا گیلانی کے نام پر مہر لگی ہوئی ہے جبکہ ایک بیلٹ پیپر پر دونوں امیدواروں کے حق میں ووٹ دیا گیا جس کے باعث اسے مسترد کیا گیا، اس طرح مجموعی طور پر 8 ووٹ مسترد ہوئے۔
انہوں نے نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ایوان بالا میں موجود تمام 98 ارکان نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا جن میں سے صادق سنجرانی نے 48 ووٹ حاصل کیے جبکہ یوسف رضا گیلانی کو 42 ووٹ ملے۔
یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائیک نے مسترد ہونے والے 7 ووٹوں کو چیلنج کیا۔
انہوں نے پریزائیڈنگ افسر کو مخاطب کرکے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ کمیٹی بنائیں لیکن آپ نے میری بات نہیں سنی، رولز میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ مہر کس جگہ لگائیں۔
انہوں نے کہا کہ جن ووٹوں کی بات کر رہے ہیں ان میں مہر خانے کے اندر لگی ہوئی ہے باہر نہیں۔
صادق سنجرانی کے پولنگ ایجنٹ محسن عزیز نے کہا کہ رولز میں یہ نہیں لکھا کہ امیدوار کے نام کے اوپر مہر لگائی جائے، لکھا ہوا ہے نام کے سامنے خانے میں مہر لگائیں۔
پریزائیڈنگ افسر نے رولنگ دیتے ہوئے ان 7 ووٹوں کو مسترد کردیا اور فاروق نائیک سے کہا کہ آپ ٹربیونل سے رجوع کر لیں۔
سب کو ساتھ لے کر چلوں گا، صادق سنجرانی
بعد ازاں نومنتخب چیئرمین سینیٹ سے پریزائیڈنگ افسر نے حلف لیا۔
سینیٹر صادق سنجرانی نے دوبارہ چیئرمین سینیٹ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد نشست سنبھالتے ہوئے انہیں ووٹ دینے والے سینیٹرز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں تمام ایوان کا اور پی ٹی آئی کی قیادت اور خاص طور پر پرویز خٹک کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ وہ عمران خان اور اپنی پارٹی کے سربراہ جام کمال خان کے بھی شکر گزار ہیں۔
صادق سنجرانی نے کہا کہ انہوں نے جس طرح 3 سال سے ایوان کو چلایا ہے وہ اس سلسلے کو جاری رکھیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب
اس کے بعد نو منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کا اعلان کیا اور انتخاب کے قوانین دوہراتے ہوئے سیکریٹری سینیٹ کو ہدایت کی کہ وہ ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے اراکین کا نام پکاریں، جس کے بعد اراکین کے نام پکارے گئے اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے اراکین نے ووٹ کاسٹ کیا۔
ووٹنگ کی تکیمل پر ووٹوں کی گنتی ہوئی اور نتیجے کا اعلان کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے 98 ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ کوئی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ مرزا محمد آفریدی نے 54 ووٹ حاصل کیے جبکہ عبدالغفور حیدری کو 44 ووٹ ملے۔
اس کے بعد صادق سنجرانی نے مرزا محمد آفریدی سے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کا حلف لیا۔
واضح رہے کہ ایوان بالا میں پولنگ بوتھ کے قریب سے مبینہ طور پر خفیہ کیمرے برآمد ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن اراکین کے خدشات کے بعد نیا پولنگ بوتھ نصب کردیا گیا تھا۔
خفیہ کیمروں کی تحقیقات کیلئے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت
اجلاس کے آغاز میں پریزائیڈنگ افسر مظفر حسین شاہ نے پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمروں کی تنصیب کے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت جاری کی۔
انہوں نے بتایا کہ سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر اور سینیٹر مصدق ملک کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے یکساں تعداد میں اپوزیشن اور حکومتی اراکین پر مشتمل کمیٹی بنانے کی استدعا کی گئی تھی۔
پریزائیڈنگ افسر کے مطابق کمیٹی کا کنوینر اس کے اراکین خود منتخب کرنے اور برآمد شدہ آلات کو معاملے کا حتمی فیصلہ ہوجانے تک سیل کرنے کی استدعا بھی کی گئی تھی۔
چنانچہ پریزائیڈنگ افسر نے اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے 3، 3 اراکین پر مشتمل سینیٹ کمیٹی تشکیل دے دی جن کے اراکین کے نام قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف سیکریٹری سینیٹ کے پاس جمع کروائیں گے۔
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل شروع کرنے سے قبل پریزائیڈنگ افسر نے اراکین کو ووٹ ڈالنے کا عمل وضاحت کے ساتھ سمجھایا اور کہا کہ اگر کوئی غلطی ہوجائے تو بکسے میں ووٹ ڈالنے سے قبل سیکریٹری کو آگاہ کردیں تاکہ رکن کو دوسرا بیلٹ پیپر جاری کردیا جائے۔
ووٹنگ کا آغاز حروف تہجی کے اعتبار سے ہوا اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری نے اپنا نام پکارے جانے پر سب سے پہلا ووٹ کاسٹ کیا، ووٹنگ کا عمل شام 5 بجے تک جاری رہا اور اس دوران اراکین کو اپنے ہمراہ کسی قسم کی الیکٹرونک ڈیوائسز رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
ایوان بالا کے 98 اراکین نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اجلاس سے غیر حاضر رہے اور انہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے اسحٰق ڈار نے تاحال سینیٹر کا حلف نہیں اٹھایا اور الیکشن کمیشن نے ان کی رکنیت معطل کر رکھی ہے۔
ووٹوں کی گنتی کے وقت صادق سنجرانی کے پولنگ ایجنٹ محسن عزیز اور یوسف رضا گیلانی کے پولنگ ایجنٹ فاروق ایچ نائیک بھی موجود تھے۔
خیال رہے کہ آج ایوان بالا میں حکومت کی جانب سے موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور اپوزیشن کی جانب سے یوسف رضا گیلانی اُمیدوار تھے جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے حکومت کی جانب سے مرزا محمد آفریدی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے عبدالغفور حیدری کو اُمیدوار نامزد کیا گیا ہے۔
سینیٹرز کی حلف برداری
اس سے قبل ایوانِ بالا کے لیے 3 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے والے سینیٹرز نے حلف اٹھایا، پریزائیڈنگ افسر سینیٹر مظفر حسین شاہ نے نومنتخب اراکینِ سینیٹ سے حلف لیا تھا۔
ایوان میں حلف برداری کے فوراً بعد پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کی قیادت میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے پولنگ بوتھ میں مبینہ طور پر خفیہ کیمرے نصب ہونے پر احتجاج کیا گیا۔
واضح رہے کہ چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے انتہائی اہم انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتے ہیں جس کے لیے ایوان میں پولنگ بوتھ بنایا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کامیابی کیلئے جو کچھ کرنا پڑا کریں گے، شبلی فراز
رضا ربانی کے اعتراض کے بعد اپوزیشن اراکین نے ایوان کے اندر شیم شیم کے نعرے لگائے اور کہا کہ کیمرے لگانا شکست کی نشانی ہے، ساتھ ہی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ ایوان کا کنٹرول کس کے پاس تھا۔
اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود پریزائنڈنگ افسر نے ایجنڈے سے ہٹ کر کوئی معاملہ موضوع بحث لانے سے انکار کردیا، البتہ موجودہ پولنگ بوتھ کو ہٹا کر نیا پولنگ بوتھ لگانے کی ہدایت کی۔
نومنتخب سینیٹرز کی حلف برداری کے بعد اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے اپوزیشن امیدواران یوسف رضا گیلانی اور عبدالغفور حیدری نے بالترتیب فاروق ایچ نائیک اور کامران مرتضیٰ کو اپنا پولنگ ایجنٹ مقرر کیا ہے جبکہ صادق سنجرانی کے لیے سینیٹر محسن عزیز پولنگ ایجنٹ کے فرائض انجام دیں گے۔
مزید پڑھیں: حکومت نے مرزا محمد آفریدی کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کردیا
اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم کی جانب سے مشترکہ طور پر چیئرمین سینیٹ کے لیے یوسف رضا گیلانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے مولانا عبدالغفور حیدری کو نامزد کیا ہے۔
دوسری جانب سے حکومت کی جانب سے چیئرمین کے عہدے کے لیے صادق سنجرانی اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے مرزا محمد آفریدی کو میدان میں اتارا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا محمد آفریدی مارچ 2018 کے سینیٹ انتخابات میں فاٹا سے آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے تھے اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی تھی لیکن اس کے بعد انہوں نے خاموشی سے اپنی وفاداری تبدیل کرلی۔
ڈان کے پاس دستیاب دستاویز کے مطابق مرزا محمد آفریدی نے 16 مارچ 2018 کو الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کا اقرار نامہ جمع کروایا تھا۔
حالانکہ اپوزیشن جماعتوں کو چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جیتنے کے لیے سینیٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے تاہم سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا کہ یہ بہت قریبی مقابلہ ہوگا اور پارٹی پالیسی سے کسی قسم کا اختلاف یا خفیہ رائے شماری میں ووٹ کے ضیاع کا نتیجہ اپ سیٹ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار بنانے کا اعلان
یاد رہے کہ اس سے قبل سال 2019 میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی تحریک عدم اعتماد سے بچنے میں کامیاب ہوئے تھے اور اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود اس تحریک کے حق میں 50 ووٹ جبکہ مخالفت 45 ووٹس ڈالے گئے تھے۔
اس وقت 104 ارکین سینیٹ پر مشتمل ایوان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 53 ووٹس درکار تھے، حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے اپوزیشن کو 64 اراکین کی حمایت حاصل تھی اس کے باوجود چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تھی۔
سینیٹ میں نمبر گیم
ایوان بالا میں موجود حکومتی اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف کے 27 اراکین، بلوچستان عوامی پارٹی کے 12 اراکین، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 3 اراکین، آزاد اراکین 3 اور پی ایم ایل (ق) اور جی ڈی اے کا ایک ایک امیدوار تھے۔
دوسری جانب اپوزیشن کے پاس پیپلز پارٹی کے 21، مسلم لیگ (ن) کے 17 اراکین (اسحٰق ڈار کے سوا)، جمیعت علمائے اسلام (ف) کے 5 اراکین جبکہ اے این پی، بی این پی مینگل، پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے 2، 2 اراکین اور جماعت اسلامی کا ایک رکن تھا۔
یوں اس وقت ایوانِ بالا میں 99 اراکین ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) کے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے رہنما اسحٰق ڈار شامل نہیں جنہوں نے اپنی نشست کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا۔
ان 99 اراکین میں 47 کا تعلق حکمران اتحاد جبکہ 52 کا اپوزیشن جماعتوں سے اور اگر جماعت اسلامی کے واحد سینیٹر گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں انتخاب کی طرح ووٹ ڈالنے نہیں آئے تو اس وقت بھی اپوزیشن کے پاس 4 ووٹوں کی برتری ہوگی۔