ایران کا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے غیر رسمی مذاکرات سے انکار
ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات کے انعقاد کو مسترد کرتے ہوئے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ پہلے اپنی یکطرفہ پابندیاں ہٹائے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق ایرانی میڈیا نے وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کے حوالے سے کہا کہ ’امریکا اور تین یورپی طاقتوں کے حالیہ اقدامات اور بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران اس وقت ان ممالک سے غیر رسمی مذاکرات کو مناسب نہیں سمجھتا جس کی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ نے پیشکش کی ہے۔‘
امریکا نے پیشکش ٹھکرائے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا تاہم اس کا کہنا تھا کہ وہ ’بامقصد سفارت کاری دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے‘ اور دوسری طاقتوں کے ساتھ مل کر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے گا۔
قبل ازیں ایرانی حکام نے کہا تھا کہ تہران، ایران یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کی امریکا اور معاہدے کے دیگر فریقین کے ساتھ ایک غیر رسمی کی پیشکش پر غور کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: جوہری معائنہ کاروں کو روکنے سے ملک عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوسکتا ہے، ایرانی اخبار
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد امریکا نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔
امریکا کے نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ ایران سے معاہدے کی بحالی کے لیے بات چیت کے لیے تیار ہے۔
تاہم دونوں فریقین ابھی تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ پہلا قدم کون اٹھائے گا۔
ایران کا مطالبہ ہے کہ امریکا کو پہلے پابندیاں اٹھانا ہوں گی جبکہ واشنگٹن، تہران سے معاہدے پر مکمل عمل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس کی ایران 2019 سے خلاف ورزی کر رہا ہے۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن معاہدے عملدرآمد کے لیے مشترکہ واپسی کی کوششیں جاری رکھے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس حوالے سے معاہدے کے دیگر فریقین برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس سے مشاورت کرتے ہوئے ایک بہتر حکمت عملی پر غور کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پابندیاں برقرار رہیں تو جوہری ہتھیاروں کی تیاری شروع کرسکتے ہیں، ایران
'یہ سڑک کا اختتام نہیں'
امریکا کے ایک سینیئر ذرائع نے کہا کہ ایران کا انکار سفارتی عمل کا ایک حصہ ہے۔
ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ’ہم نہیں سمجھتے کہ یہ سڑک کا اختتام ہے، یہ بدقسمتی ہے کہ ایران نے مذاکرات سے انکار کر دیا ہے لیکن ہم اس حوالے سے مزید خیالات سننے کے لیے تیار ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس بارے میں کوئی اور تجویز دیتے ہیں تو ہم اس پر بھی غور کریں گے اور کسی خاص طریقے سے ہی مذاکرات کے لیے چپکے نہیں رہیں گے۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ایران نے اضافی پروٹوکول پر عملدرآمد روک دیا تھا جس کے ذریعے بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) ایران میں غیر اعلانیہ مقامات کا اچانک معائنہ کرسکتی تھی۔
مزید پڑھیں: 'ایران جوہری معاہدے کے تحت وعدوں کی مکمل پاسداری کرے'
تاہم 21 فروری کو ہونے والے معاہدے کے تحت ایران نے 2015 کے معاہدے کے مطابق تین ماہ تک اضافی ڈیٹا کا ریکارڈ برقرار رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا، جو کہ پابندیوں کے خاتمے پر بین الااقوامی توانائی ایجنسی کے سپرد کردیا جائے گا۔