پاکستان

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان 68 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

مشاہداللہ خان کو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آئندہ سینیٹ انتخابات میں عام نشست پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب اسلام آباد میں انتقال کر گئے۔

مشاہد اللہ خان کی عمر 68 سال تھی اور ان کے لیے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے آئندہ سینیٹ انتخابات 2021 میں عام نشست پر الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔

ان کی وفات کی تصدیق مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں کی، جس میں انہوں نے متوفی سینیٹر کو سابق وزیراعظم نواز شریف کا 'وفادار اور غیر معمولی ساتھی' کہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا۔

اپنے پیغام میں مریم نواز نے مزید کہا کہ 'مجھے یہ افسوسناک خبر سن کر دھچکا لگا، ان کی پدرانہ شفقت اور محبت کبھی بھلائی نہیں جاسکتی، بہت، بہت بڑا نقصان'۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا۔

علاوہ ازیں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بھی ایوان بالا کے رکن سینٹر مشاہد اللہ خان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

اپنے پیغام میں اسد قیصر نے کہا کہ مشاہد اللہ خان ایوان بالا کے ایک فعال رکن تھے، ان کی وفات سے پارلیمان ایک متحرک سیاسی رہنما سے محروم ہو گیا جبکہ ڈپٹی اسپیکر کا کہنا تھا کہ مشاہد اللہ خان کی سیاسی اور سماجی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ مشاہداللہ خان تجربہ کار سیاستدان اور ایک اچھے انسان تھے، ساتھ ہی انہوں نے ان کی مغفرت کے لیے دعا بھی کی۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا کہ 'پارٹی ایک انتہائی بہادر اور زیرک پارلیمنینٹیرین سے محروم ہوگئی ہے'۔

دوسری جانب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہیں مشاہد اللہ ان کی وفات کا سن کر 'بہت دکھ' ہوا، یہ ایک بڑا نقصان ہے ہماری دلی تعزیت ان کے اہل خانہ اور مسلم لیگ (ن) کے تمام ورکرز کے ساتھ ہے۔

علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور صوبائی وزیر سعید غنی نے ایک تعزیتی پیغام میں کہا کہ 'سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باوجود میں نے ہمیشہ یہ تسلیم کیا کہ مشاہد اللہ خان ایک بہادر، جمہوریت پسند اور اپنے مؤقف کا کھل کر اظہار کرنے والے سیاسی کارکن ہیں، ان سے ایک پرانا تعلق رہا جو ہمیشہ یاد رہے گا'۔

مشاہداللہ خان کون تھے؟

مشاہداللہ خان اپنے بے باک بیانات اور جارحانہ وفاداری کے سبب شریف برادران کو پسند تھے۔

سال 1999 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے زیادہ تر رہنما چھلانگ لگا کر دوسری کشتی میں سوار ہوگئے تھے لیکن مشاہد اللہ نے فوجی آمر کا سامنا کرنے کا انتخاب کیا۔

پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر انہوں نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے 2 پرکشش عہدوں سے استعفیٰ دے دیا جس میں ایک کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ جبکہ دوسرا عہدہ وزیر محنت اور افرادی قوت تھا۔

ان کے اس اقدام پر انہیں قید کردیا گیا اور خود ان کے بقول انہیں فوجی حکومت کے متعدد 'مظالم' برداشت کرنے پڑے۔

اپنی جماعت کے حلقوں میں قابل احترام ہونے کے باوجود ان کا مزاج اور عوامی بیانات دیتے ہوئے جارحانہ رویہ اکثر ان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کا سبب بنا۔

جب سے نواز شریف کو جلاوطنی پر مجبور کیا گیا مشاہداللہ خان ان کے قابلِ بھروسہ ساتھی تھے، پہلے وہ مسلم لیگ (ن) کے انفارمیشن سیکریٹری بعدازاں 2009 میں سینیٹر بنادیے گئے، وہ کئی برسوں تک اپنی جماعت کے ترجمان بھی رہے۔

وزیراعظم عمران خان کا سری لنکن پارلیمنٹ سے طے شدہ خطاب منسوخ

فوجی حکمرانی کے خاتمے تک لڑتے رہیں گے، میانمار کے عوام کا احتجاج

کووڈ 19 کے مریضوں کو درپیش ایک پراسرار مسئلے کی وجہ سامنے آگئی