پاکستان

سینیٹ انتخابات ریفرنس: ’الیکشن کمیشن نے پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا‘

جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اسے اتنی ملنی چاہئیں، تناسب سے زیادہ نشستوں پر سسٹم تباہ ہوجائے گا، جسٹس اعجاز الاحسن
|

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا، گزشتہ روز عدالت نے جو پوچھا تھا اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا و دیگر اراکین عدالت میں پیش ہوئے۔

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔

اس موقع پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ اپنا جواب جمع کروایا جس میں وہ اپنے پرانے مؤقف پر قائم رہا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینیٹ انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوسکتے ہیں۔

سماعت کے دوران وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن کمشن نے تیار جواب جمع کروایا ہے، ویجیلنس کمیٹی قائم کی ہے، مختلف شعبوں سے افسران ویجیلنس کمیٹی میں شامل ہوں گے، ہر اPمیدوار سے ووٹوں کی خریدو فروخت نہ کرنے کا بیان حلفی لیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: صدارتی ریفرنس: الیکشن کمیشن سے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تجاویز طلب

وکیل نے بتایا کہ آن لائن شکایت سینٹر قائم کردیا گیا ہے، ستمبر سے اب تک 11 سو سے زائد شکایات موصول ہوئیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ووٹوں کو خفیہ رکھنے کا مطلب ہے کہ ہمیشہ خفیہ ہی رہیں گے، کاسٹ کیے گئے ووٹ کبھی کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے۔

اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل کے جواب پر ریمارکس دیے کہ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، قیامت تک ووٹ خفیہ رہنا آئین میں ہے نہ عدالتی فیصلوں میں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کیا الیکٹرانک ووٹنگ خفیہ ہو سکتی ہے؟ (کیونکہ) انٹرنیٹ پر ہونے والی ہر چیز ٹریس ہو سکتی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ متناسب نمائندگی کا کیا مطلب ہے؟ الیکشن کمیشن متناسب نمائندگی کو کیسے یقینی بنائے گا، جس جماعت کی سینیٹ میں جتنی نشستیں بنتی ہیں اسے اتنی ملنی چاہئیں، کسی جماعت کو کم نشستیں ملیں تو ذمہ دار الیکشن کمشین ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کے تناسب سے سینیٹ نشستیں نہ ملیں تو یہ الیکشن کمیشن کی ناکامی ہوگی۔

اس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ کم و بیش 20 آزاد اراکین اسمبلی بھی ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آزاد اُمیدوار جس کو چاہیے ووٹ دے سکتا ہے؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ آزادانہ ووٹ نہ دیا تو سینیٹ انتحابات الیکشن نہیں سلیکشن ہوں گے، ووٹ دیکھنے کے لیے آرٹیکل 226 میں ترمیم کرنا ہوگی، ووٹ تاقیامت ہی خفیہ رہتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ای سی پی نے آن لائن شکایت سننے کا سسٹم شروع کر رکھا ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات سے متعلق شکایت موصول ہو تو فوری کارروائی ہوتی ہے۔

ان کی بات کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اس بات کا جواب دے کہ نمائندگی کے تناسب کا مطلب اور اس کی ضرورت کیا ہے، قومی اسمبلی کی ووٹنگ میں “آزادنہ ووٹ” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، سینیٹ انتخابات کے لیے قانون میں آزادانہ ووٹنگ کی اصطلاح شعوری طور پر شامل نہیں۔

عدالت میں سماعت کے دوران ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا، گزشتہ روز عدالت نے جو پوچھا تھا اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ

عدالتی ریمارکس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سینیٹ انتخابات آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں، خفیہ ووٹنگ میں ووٹ کی تصاویر بنانا جرم ہے، خفیہ رائے شماری میں ووٹ قابل شناخت نہیں ہوتا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ تو آج سے قیامت تک سیکریسی (رازداری) کی بات کر رہے ہیں، ایسا نہ تو آئین و قانون میں لکھا ہے نہ ہی ہمارے فیصلوں میں، جو خود ان پڑھ ہیں یا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے مدد لیتے ہیں ان کی سیکریسی کا کیا ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ الیکٹرونک ووٹنگ بھی قابل شناخت ہے، سائبر کرائم والوں سے پوچھ لیں ہر میسج ٹریس ایبل ہے۔

اسی دوران جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ سیکریسی کا معاملہ الیکشن ایکٹ میں درج ہے، سوال یہ ہے کہ کس حد تک سیکریسی ہوگی، ووٹ ڈالنے کے بعد خفیہ رکھنے کا مرحلہ ختم ہو جاتا ہے، کرپشن کے خاتمے کے لیے الیکشن کمیشن ڈالے گئے ووٹوں کا جائزہ لے سکتا ہے۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی بات سن کر اب اٹارنی جنرل کا مؤقف سنیں گے، ساتھ ہی انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ متناسب نمائندگی پر اپنے دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رضاربانی کو بھی ووٹ خفیہ رکھنے اور متناسب نمائندگی پر سنیں گے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ مسلم لیگ (ن) کے وکیل بیرسٹر طفر اللہ موجود ہیں، جس پر معاون وکیل جہانگیر جدون کا کہنا تھا کہ بیرسٹر ظفر اللہ کی طبیعت خراب ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے وکیل کو کل عدالت میں ہونا چاہیے، کیس کسی بھی وقت ختم ہو جائے گا۔

اس موقع پر وکیل بار کونسل نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کی طرف سے بھی درخواست دائر کی گئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یقیناً پاکستان بار کونسل کا مؤقف خودمختار عدلیہ اور آئین کی بالادستی والا ہوگا، اس پر وکیل نے کہا بالکل ایسا ہی ہے۔

چیف جسٹس نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ پاکستان بار کو صرف عدلیہ کی آزادی اور آئین کی بالادستی پر سنیں گے، پاکستان بار کونسل کی کوئی سیاسی بات نہیں سنی جائے گی۔

سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کوئی جماعت تناسب سے زیادہ سینیٹ سیٹیں لے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا، الیکشن کمیشن کیسے تعین کرتا ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی سے ہوئے، ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ووٹ فروخت کرنے سے متناسب نمائندگی کے اصول کی دھجیاں اڑیں گی، کوئی جماعت تناسب سے ہٹ کر سیٹیں جیت لے تو سسٹم تباہ ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس

اس پر وکیل نے کہا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا متناسب نمائندگی نہ ہونے سے سینیٹ الیکشن کالعدم ہو جائیں گے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ووٹنگ بے شک خفیہ ہو لیکن نشستیں اتنی ہی ہونی چاہیے جتنی بنتی ہیں۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی سربراہان سے پوچھنا چاہیے کہ کیا کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ اس میں ووٹ چوری نہیں ہونے دینا، تاہم الیکشن کمیشن کہتا ہے چوری ہونے کے بعد کارروائی کریں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو تناسب سے کم نشستیں ملیں تو قانون سازی کیسے ہوگی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نیند سے جاگنا ہوگا، تمام ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کی بات کے پابند ہیں، بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ یا سریل نمبر لکھا جا سکتا ہے۔

اسی دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ خریدنے والے ووٹ ملنے کو کیسے یقینی بناتے ہیں، پیسے دینے والوں کے پاس بھی کوئی سسٹم تو ہوتا ہے کہ بکنے والا ووٹ دے گا یا نہیں، الیکشن کمیشن کو معلوم ہے لیکن ہمیں بتا نہیں رہے۔

چیف جسٹس کی بات پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بے ایمانی ہمیشہ ایمانداری سے ہوتی ہے، اسلام آباد میں آج بھی لوگ نوٹوں کے بیگ لے کر بیٹھے ہوئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صرف چند لوگ ووٹ فروخت کرتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیسے دینے والے رکے ہوئے ہیں کہ عدالت اوپن بیلٹ کا حکم نہ دے دے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کسی نے قتل کے پیسے لیے اور قتل نہیں کیا تو وہ خود قتل ہوجاتا ہے جبکہ ووٹ کے لیے جو پیسے لیتا ہے اسے وہ اپنا کام پورا کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی سے سینیٹ کے ارکین منتخب ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے متناسب نمائندگی کے بارے میں پوچھا، مان لیا ووٹ خفیہ ہے لیکن اگر متناسب نمائندگی نہ ہو تو پھر کیا ہوگا۔

ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر متناسب نمائندگی نہ ہوگی تو سارا نظام جام ہوجائے گا۔

اسی اثنا میں چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کیسے متناسب نمائندگی کو یقینی بنا سکتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے یہ کہا کہ ووٹ اگر چوری ہو تو الیکشن کمیشن کارروائی کرسکتا ہے۔

ان کی بات پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمشن ووٹ چوری ہونے ہی کیوں دے، الیکشن کمشن نے ووٹ کو تحفظ دینا ہوتا ہے، اگر متناسب نمائندگی نہ ہو تو سسٹم کیسے چلے گا۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریسی کا اصل مقصد شفافیت کو برقرار رکھنا ہے، الیکشن خفیہ کا مطلب بیلٹ پیپر خفیہ ہونا ہے جبکہ سیکریسی پولنگ کے دن کی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت جیسے جدید ٹیکنالوجی استعمال کررہی ہے الیکشن کمیشن بھی ایسا کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن مخصوص بار کوڈ بیلٹ پیپز پر دے سکتا ہے، اس بار کوڈ سے صرف الیکشن کمیشن ہی ووٹ کی شناخت کرسکے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کرلیا

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ منشیات اور دو نمبر کی کمائی ووٹوں کی خریداری میں استعمال ہوتی ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد خرید و فروخت کا نیا طریقہ کار سامنے آیا ہے، پیسہ لے کر پہنچانے والے کمیشن لے رہے ہیں، دبئی میں پیسہ پہنچانے کا ریٹ الگ ہے۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن سمجھنے کی کوشش کرے وہ پورے ملک پر حکومت لاتا ہے، سینیٹ الیکشن پہلے بار نہیں ہورہا ہے، اعلیٰ آئینی ادارہ اب تک اس معاملے پر غور کیوں نہیں کر سکا، کیا تناسب سے ہٹ کر آنے والے نتائج غیر قانونی نہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی قسمت الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کو سمجھے، کیا آپ نے وطن پارٹی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، جس پر چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ انہوں نے فیصلہ نہیں پڑھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اتنا اہم فیصلہ نہیں پڑھا تو آپ سے کیا بات کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں الیکشن کرانے کا پورا طریقہ کار درج ہے۔

عدالتی ریمارکس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو ووٹ پر کوئی پابندی نہیں، اراکین اسمبلی کو ووٹ کا پابند کرنے کے لیے قانون سازی کرنا ہوگی۔

ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت الیکشن کمیشن کو مکمل بااختیار دیکھنا چاہتی ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل

علاوہ ازیں ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے شمائل بٹ نے دلائل دیے اور کہا کہ عدالت ماضی میں ووٹ خفیہ رکھنے کے معاملے پر فیصلہ دے چکی ہے، آئین کی کسی ایک شق کو الگ سے نہیں پڑھا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ انتحابی عمل کی ہر شق پر عمل پارلیمانی نظام کے مجموعی تناظر میں ہوتا ہے، اراکین اسمبلی اپنی مرضی سے سینیٹ الیکشن میں ووٹ نہیں دے سکتے۔

شمائل بٹ کے مطابق متناسب نمائندگی کا مطلب صوبائی اسمبلی کی سینیٹ میں عددی نمائندگی ہے۔

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر متناسب نمائندگی ہی ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت، جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اکثریت کی حکومت اور اقلیت کی نمائندگی ہوتی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے بھی اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد اب اس کیس کی مزید سماعت کل ہوگی جہاں دیگر صوبوں اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے دلائل دیں گے۔

پس منظر

یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔

عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔

ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: 'جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا'

وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔

بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔

صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔

علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔

لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو اتنا بتادیں کہ ان کے پیارے زندہ ہیں یا مرگئے، مریم نواز

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ضوابط میں شدید خلاف ورزیوں کا انکشاف

جنوبی وزیرستان: وانا میں غیرمعینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ