دنیا

کویت میں ’می ٹو مہم‘ کے آغاز نے عرب دنیا کو ہلا دیا

سب سے پہلے 2017 میں می ٹو مہم کا آغاز امریکا سے ہوا تھا، جس کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں یہ مہم شروع ہوئی۔

مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ملک کویت میں رواں ماہ فروری کے آغاز میں ایک فیشن بلاگر کی جانب سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سے متعلق ویڈیو شیئر کیے جانے کے بعد وہاں ’می ٹو مہم‘ شروع ہوگئی۔

کویت میں بڑے پیمانے پر شروع ہونے والی ’می ٹو مہم‘ نے نہ صرف خلیجی ملک بلکہ دیگر عرب ممالک کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور خیال کیا جا رہا ہے کہ دیگر مشرق وسطی ممالک میں بھی مہم شروع ہوگی۔

خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) کے مطابق کویت میں ’می ٹو مہم‘ اس وقت شروع ہوئی جب کہ گزشتہ ہفتے امریکی نژاد کویتی فیشن و بیوٹی بلاگر آسیا ال فرج نے انسٹاگرام پر ایک مختصر ویڈیو شیئر کی۔

آسیا ال فرج نے 5 فروری کو ڈھائی منٹ دورانیے کی ویڈیو میں کویت میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے معاملے پر کھل کر بات کی۔

آسیا نے انگریزی میں شیئر کی گئی ویڈیو میں الزام عائد کیا کہ کویت کی ہر گلی میں ان سمیت دیگر خواتین کو جنسی طور پر زبانی و جسمانی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

انہوں نے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے پر خواتین کی خاموشی پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر بات کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ واقعات کو سامنے لایا جائے۔

اگرچہ آسیا ال فجر نے اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی نامناسب واقعے کا ذکر نہیں کیا، تاہم انہوں نے مجموعی طور پر بتایا کہ کویت میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا رواج موجود ہے۔

ان کے مطابق کویت میں نہ صرف مقامی بلکہ یہاں پر روزگار کے لیے موجود دیگر ممالک کی خواتین کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔

فیشن و بیوٹی بلاگر کے مطابق کویت میں موجود پاکستانی، بھارتی اور فلپائنی خواتین سمیت دیگر ممالک کو بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ روزگار کی خاطر یہ سب برداشت کرتی ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق آسیا ال فجر کی کی جانب سے جنسی ہراساں کے معاملے پر بات کیے جانے کے بعد بیرو ممالک سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرکے حال ہی میں وطن لوٹنے والی 27 سالہ شائمہ شیمو نے ’لن اسکت‘ (Lan Asket) نامی ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ بنایا اور انہوں نے کویت بھر کی خواتین کو اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی داستان سنانے کی اپیل کی۔

شائمہ شیمو کی جانب سے بنائے گئے اکاؤنٹ میں ایک گوگل فارم بھی دیا گیا، جس میں ہراسانی کا شکار ہونے والے مرد و خواتین کو اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کی تفصیلات بھجوانے کی اپیل کی گئی۔

عربی لفظ ’لن اسکت‘ (Lan Asket) کا مطلب اب میں خاموش نہیں رہوں گی ہے اور اسی نام سے انسٹاگرام اکاؤنٹ بنائے جانے کے بعد کئی اہم شخصیات اور عام کویتی صارفین نے بھی اسی ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے ہراسانی کے واقعات پر بات کی۔

جہاں عام افراد نے بھی ’لن اسکت‘ (Lan Asket) کا ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے خواتین کو ہراساں کیے جانے کے مسائل پر بات کی، وہیں اس پر کویت میں موجود امریکا سمیت دیگر غیر ملکی سفارت خانوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی اس مسئلے پر بات کی گئی۔

کویت میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے حوالے سے انسٹاگرام پر ’لن اسکت‘ (Lan Asket) اکاؤنٹ بنانے والی شائمہ شیمو کا کہنا تھا کہ عام طور پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کو ان کے لباس اور طرز زندگی سے جوڑا جاتا ہے۔

ان کے مطابق جب بھی کسی خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو ڈھانپے اور اپنا طرز زندگی تبدیل کرے تو ہراسانی سے بچ سکیں گی۔

شائمہ شیمو کا کہنا تھا کہ کویت میں جنسی ہراسانی کا شکار بننے والی خواتین کے لیے شرم کا مسئلہ بھی ہے، انہیں لگتا ہے کہ جب وہ اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کو بیان کریں گی تو نہ صرف ان کی عزت بلکہ ان کے خاندان کی عزت بھی خراب ہوگی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ شرمندگی اور سماج کی جانب سے شرمسار کیے جانے کی وجہ سے ہی کئی خواتین اپنے ساتھ ہونے والے واقعات کو بیان نہیں کرتیں اور نہ ہی شرم کے مارے پولیس تھانے جاکر رپورٹ کرتی ہیں۔

اسی حوالے سے ہیومن رائٹس واچ کی سینیئر ریسرچ روتھنا بیگم کا کہنا تھا کہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا منظم سلسلہ نہ صرف کویت بلکہ دیگر مشرق وسطی ممالک میں جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کو ان کے لباس اور طرز زندگی سمیت دیگر وجوہات کی وجہ سے ہراسانی کا نشانہ بنانے والے افراد کو سخت سزائیں دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

فیشن بلاگر کی جانب سے جنسی ہراسانی کے واقعات پر بات کیے جانے اور ایک ڈاکٹر کی جانب سے ایسے واقعات کو سامنے لانے کے لیے سوشل میڈیا اکاوٌنٹ بنائے جانے کے بعد عام نوجوان کویتی خواتین بھی اسی معاملے پر بات کرتی دکھائی دیں۔

ایک طالبہ نے سلسلہ وار ویڈیوز میں بھی کویت میں خواتین کو زبانی، ذہنی و جسمانی ہراسانی کا نشانہ بانئے جانے کے واقعات پر بات کی اور کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے واقعات پر خاموشی ختم کی جائے۔

علاوہ ازیں مختف ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز، ٹی وی چینلز، اخبارات و ویب سائٹس سمیت سوشل میڈیا پر متحرک افراد کی جانب سے بھی جنسی ہراسانی کے معاملات پر بات کی گئی۔

خیال رہے کہ ’می ٹو مہم‘ کا سب سے پہلے آغاز اکتوبر 2017 میں امریکا سے ہوا تھا، جس کے تحت ہولی وڈ انڈسٹری کی درجنوں خواتین نے فلم ساز ہاروی وائنسٹن پر جنسی ہراسانی اور ریپ کے الزامات عائد کیے تھے۔

’می ٹو مہم‘ کا مقصد خواتین کی جانب سے خود کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سمیت اپنے ساتھ ہونے والے نسلی و صنفی تعصب کے واقعات کو سامنے لانا ہے۔

امریکا کے بعد ’می ٹو مہم‘ 2017 کے اختتام تک یورپ اور دیگر امریکی ممالک میں بھی شروع ہوئی تھی اور 2018 کے آغاز میں ہی اس مہم کا آغاز متعدد ایشیائی ممالک میں ہوا۔

پاکستان اور بھارت میں بھی 2018 میں ہی ’می ٹو مہم‘ کا آغاز ہوا جب کہ مصر و ترکی سمیت دیگر مشرق وسطی ممالک کی خواتین بھی اسی مہم کے تحت اپنے ساتھ ہونے والے واقعات سامنے لائیں، تاہم اب کویت میں بھی اس مہم کا باضابطہ آغاز ہوگیا۔

’می ٹو‘: جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین کی مہم نے دنیا کو ہلا دیا

دنیا کو ’ہلادینے‘ والی ’می ٹو‘ مہم کے تین سال بعد دنیا کہاں کھڑی ہے؟

’می ٹو مہم‘ کو دھچکا: ادارے کی سربراہ مستعفی