پاکستان

ٹیکنالوجی کمپنیوں کا سوشل میڈیا قواعد پر مشاورت کا منصوبہ جاری کرنے کیلئے زور

اٹارنی جنرل پاکستان کو ارسال کردہ خط میں ٹیکنالوجیز کمپنیوں نے ان سے مشاورت کا واضح نیٹ ورک، ٹائم لائن اور پلان مانگا ہے، رپورٹ
|

سوشل میڈیا قواعد کی آئندہ سماعت کو ایک ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے ایسے میں ٹیکنالوجیز کمپنیوں نے اٹارنی جنرل فار پاکستان سے مشاورت کا واضح نیٹ ورک، ٹائم لائن اور پلان مانگ لیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ارسال کردہ خط میں ایشیئن انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے اس بات کو دہرایا کہ قواعد کی موجودہ صورتحال ٹیکنالوجی کمپینوں کے لیے پاکستان میں اپنا پلیٹ فارم بنانے اور صارفین کو کاروبار اور سروسز فراہم کرنے کو سخت مشکل بنا دے گی۔

یہ نئے قواعد برقی جرائم کی روک تھام کے قانون 2016 کے تحت ریموول اینڈ بلاکنگ آف ان لا فل آن لائن کانٹینٹ رولز 2020 کے ذریعے متعارف کروائے گئے تھے جسے اے آئی سی سمیت متعدد اسٹیک ہولڈرز نے فوری طور پر مسترد کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت سوشل میڈیا قواعد پر نظرثانی کیلئے تیار

قبل ازیں جنوری میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان نے اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ اس معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مناسب مشاورت کریں گے۔

چنانچہ اے آئی سی کے ڈائریکٹر جیف پین نے اٹارنی جنرل کو لکھے گئے خط میں تحریر کیا کہ 'ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے آپ کے قواعد پر بامعنی مشاورت یقینی بنانے اور ان پر نظر ثانی کرنے کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں'۔

اے آئی سی نے مشاورت کے ایک واضح فریم ورک، ٹائم لائن اور منصوبے میں بامعنی مشاورت کے بنیادی اصول یقینی بنانے کے لیے ان کی معاونت طلب کی۔

اس کیس کی اگلی سماعت 26 فروری کو ہوگی تاہم مشاورت کے منصوبے کی تفصیلات ابھی تک عوام یا اسٹیک ہولڈرز کو نہیں فراہم کی گئیں۔

مزید پڑھیں:سوشل میڈیا قواعد برقرار رکھنے پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا ملک چھوڑنے کا انتباہ

پالیسی بنانے اور مشاورتی عمل میں بھروسہ شامل کرنے کے لیے اے آئی سی نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ حکومت اسٹیک ہولڈرز کو ڈرافٹ فراہم کرے گی تا کہ ان کا فیڈ بیک حاصل کیا جاسکے، تجاویز شامل کی جاسکیں، ہر مسودے میں تبدیلی اور ہر مسودے کی دفعات میں کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں وضاحتی میمو جاری کریں۔

خط میں اس بات پر برہمی کا اظہار کیا گیا کہ پی ٹی اے کو دیے گئے اختیارات کا دائرہ کار واضح کرنے کے بجائے ان قواعد نے پاکستان میں آن لائن پلیٹ فارمز اور صارفین دونوں کے لیے الجھن پیدا کردی ہے۔

خیال رہے کہ حکومت نے نومبر 2020 کو 'ریموول اینڈ بلاکنگ اَن لا فل آن لائن کانٹینٹ (پروسیجر، اوور سائٹ اینڈ سیف گارڈز) رولز 2020' کے عنوان سے قواعد (نوٹیفائڈ) نافذ کیے تھے لیکن ڈیجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی جانب سے اس کا خیرمقدم نہیں کیا گیا تھا۔

ان قواعد کے نوٹیفائی ہونے کے ایک روز بعد ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ان ضوابط کے تحت ان کا ملک میں اپنا کام جاری رکھنا مشکل ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹیکنالوجی کمپنیوں نے سوشل میڈیا قواعد میں اہم تبدیلیوں کیلئے وزیراعظم سے مدد مانگ لی

یہی نہیں بلکہ ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) کی جانب سے اس نئے قواعد پر سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا اور وزیر اعظم عمران خان کو بھی خط لکھ کر مدد کی اپیل کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ اے آئی سی امریکا سے تعلق رکھنے والی 15 کمپنیوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ایک گروپ ہے، جس میں یاہو، فیس بک، ٹوئٹر، ایپل، کلاؤڈ فلیئر، بوکننگ ڈاٹ کام، گریب، ایئربی این بی، سیپ، راکیوٹین، لنکڈان، لائن، امیزون اور ایک میڈیا گروپ شامل ہیں۔

مذکورہ خط میں کہا گیا تھا کہ ان قواعد کی وجہ سے ان سوشل میڈیا کمپنیوں کا پاکستان میں اپنی خدمات اور پلیٹ فارم جاری رکھنا 'سخت مشکل' ہوگیا ہے۔

5 دسمبر کو تحریر کیے گئے خط میں مشاورت کے معتبر عمل کا فوری مطالبہ کیا گیا تھا جس کے ذریعے اے آئی سی اراکین اہم اِن پٹ فراہم کرسکیں اور اہم مسائل مثلاً فرد کے اظہار اور پرائیویسی کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے گئے حقوق پر بات چیت کی جائے۔

علاوہ ازیں ان تحفظات کا جواب دیتے ہوئے پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی نے کہا تھا کہ ’قوانین سے متعلق متعصبانہ اور غلط تاثر پیش کیا جارہا ہے‘۔

پی ٹی اے نے ایک بیان میں معنی خیز مشاورت نہ کیے جانے کے اے آئی سی کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے اسے ’گمراہ کن اور حقائق کے منافی‘ قرار دیا تھا۔

قلات میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 3 مزدور جاں بحق، ایک زخمی

اسپیکر قومی اسمبلی کا 3 ’جھگڑالو‘ اراکین کے خلاف کارروائی کا فیصلہ

عدالتوں میں صحافیوں کے دفاع کے لیے سیل قائم