لاہور: احتجاج کرنے والے طلبہ کے 5 رہنماؤں کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ
لاہور کی مقامی عدالت نے نجی یونیورسٹی میں مبینہ ہنگامہ آرائی کے مقدمے میں نامزد 5 طلبہ رہنماؤں کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ صابر حسین نے سماعت کی جہاں پولیس نے گزشتہ روز گرفتار کیے گئے 5 طلبہ حارث احمد، زبیر صدیقی، ثنااللہ عمان اور علی اشرف کو پیش کیا۔
مزید پڑھیں: کیمپس امتحانات کے خلاف احتجاج، لاہور میں پانچ طلبہ رہنما گرفتار
پولیس نے عدالت سے گرفتار طلبہ کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی اور مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان نے نجی یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی کی اور توڑر پھوڑ کی ہے اس لیے تفتیش مکمل کرنے کےلیے 14 روز کا ریمانڈ دیا جاٸے۔
عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے پانچوں طلبہ کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر ملزمان سے ہونے والی تفتیش سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
خیال رہے کہ پولیس نے گزشتہ روز دو ہفتوں سے شہر میں یونیورسٹی کے امتحانات کے انعقاد کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے والے پانچ طلبہ کو اقبال ٹاؤن کے علاقے میں ایک مکان میں صبح سویرے چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی بھاری نفری اقبال ٹاؤن کے رضا بلاک میں نے طالب رہنما ثنااللہ کے گھرپر چھاپہ مارا اور پھر پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو (پی ایس سی) لاہور کے صدر زبیر صدیقی، سیکریٹری جنرل علی اشرف، سیکریٹری اطلاعات سلمان سکندر، ایک کارکن حارث اور ان کے مکان مالک کو گرفتار کر لیا تھا۔
ثناءاللہ کی اہلیہ سدرہ نے بتایا تھا کہ وہ صبح 4 بجے سو رہے تھے کہ جب انہوں نے کسی کے دیوانہ وار دروازہ پیٹنے کی آواز سنی۔
جیسے ہی ان کے شوہر نے دروازہ کھولا تو بھاری ہتھیاروں سے لیس اور سادہ کپڑوں میں ملبوس تقریباً 10 پولیس اہلکار گھر میں داخل ہوئے اور کمرے میں موجود ان کے مہمانوں پر حملہ کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: طلبہ کا احتجاج، پولیس کے مبینہ لاٹھی چارج سے متعدد زخمی
ان کا کہنا تھا کہ کہ پولیس نے ان کے شوہر اور دیگر افراد کو گاڑی میں باندھ کر ڈالنے سے قبل ان سے بدتمیزی کی، گالی گلوچ کی اور طالب علموں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔
انہوں نے کہا کہ زبیر صدیقی عدالت کی جانب سے جاری کردہ ضمانت قبل از گرفتاری کا آرڈر دکھایا تھا لیکن چھاپہ مار پولیس اہلکاروں نے ان کی بات نہیں مانی جبکہ انہیں اور دیگر افراد کو لے کر چلے گئے۔
سدرہ نے بتایا تھا کہ میں نے اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے دن میں متعدد پولیس دفاتر کا دورہ کیا ہے لیکن کوئی بھی مجھے بتانے کو تیار نہیں تھا کہ انہیں کہاں حراست میں رکھا گیا ہے۔
اس سے قبل 26 جنوری کو ایک نجی یونیورسٹی کے باہر مظاہرہ کرنے والے طلبہ پر سیکیورٹی گارڈز نے لاٹھی چارج کیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ طلبہ کے سر میں چوٹیں لگی تھیں۔
نواب ٹاؤن پولیس نے 95 نامزد اور 400-500 نامعلوم طلبہ کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 452، 506 / بی، 148، 149، 427، 342، 290، 291، 440، 436، 269 اور 270 کے تحت مقدمہ درج کرلیا تھا اور یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر نوید مختار کی شکایت پر پنجاب مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کی دفعہ 16 کے تحت مقدمے کا اندراج کیا تھا۔
پولیس نے مظاہرین میں سے 36 طلبہ کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا تھا جنہیں 27 جنوری کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور انہوں نے تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔