بھارت: پرتشدد احتجاج کے بعد کسانوں نے دوبارہ نئی دہلی کے باہر ڈیرے ڈال دیے
ہندوستان کے یوم جمہوریہ کے موقع پر تاریخی لال قلعہ پر چڑھائی کرنے والے ہزاروں کسانوں نے بدھ کو ایک مرتبہ پھر دارالحکومت کے باہر ڈیرے ڈال دیے۔
دو ماہ سے جاری اس احتجاج کے سب سے پرتشدد دن گزشتہ روز مظاہروں میں ایک شخص ہلاک اور 80 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو گئے تھے۔
مزید پڑھیں: بھارت کے لال قلعے پر سکھوں کا مقدس جھنڈا لہرا دیا گیا
نئے زرعی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے اب بغاوت کی شکل اختیار کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے لیے برا چیلنج بن گئے ہیں۔
منگل کو 10 ہزار سے زیادہ ٹریکٹر اور پیدل یا گھوڑوں پر سوار ہزاروں افراد نے دارالحکومت جانے کی کوشش کی، انہوں نے پولیس کی جانب سے راستے میں رکاوٹ کے لیے کھڑی کی جانے والی بسوں کو پار کیا اور اس دوران ان کا پولیس سے بھی سامنا ہوا جنہوں نے ان کی پیش قدمی روکنے کے لیے آنسو گیس اور پانی کی توپوں کا استعمال کیا۔
انہوں نے ہندوستانی مغل شہنشاہوں کی جانب سے 17 ویں صدی میں بنائے گئے تاریخی لال قلعہ کی عمارت پر بھی کچھ وقت کے لیے قبضہ کر لیا تھا اور ان مناظر کو ہندوستانی چینلز نے براہ راست دکھایا تھا۔
کسان، رسموں میں استعمال ہونے والی تلواریں، رسیاں اور لاٹھی اٹھائے ہوئے تھے جس کی بدولت وہ پولیس پر قابو پانے میں کامیاب رہے، مودی کی قوم پرست حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بننے والے اس احتجاج میں شریک کچھ افراد نے لال قلعے پر چڑھائی کے بعد وہاں سکھوں کا مذہبی پرچم بھی لہرا دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی یوم جمہوریہ پر ہزاروں کسانوں کا نئی دہلی میں احتجاج، لال قلعے پر چڑھائی
نئی دہلی پولیس کے افسر انٹو الفونسو نے بدھ کی صبح گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب صورتحال معمول کے مطابق ہے، مظاہرین دارالحکومت کی سڑکوں سے چلے گئے ہیں۔
منگل کے روز آدھی رات تک نئی دہلی کی بیشتر سڑکیں دوبارہ گاڑیوں کے لیے کھول دی گئیں جہاں احتجاج کے منتظم مشترکہ کسان مورچہ یا متحدہ کسانوں کے محاذ نے ٹریکٹر مارچ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا اور دو بیرونی گروہوں پر الزام لگایا کہ وہ دوسری صورت میں پرامن تحریک میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔
مظاہرین کے رہنما یوگیندر یادو نے کہا کہ گوکہ اس کو سبوتاژ کیا گیا ہے لیکن ہم پھر بھی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتے۔
انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یکم فروری کو جب پارلیمنٹ میں مودی حکومت بجٹ پیش کرے گی تو مظاہرین منصوبہ بندی کے تحت ایک اور مارچ کے لیے آگے بڑھیں گے یا نہیں۔
یوگیندر یادو نے کہا کہ احتجاج کرنے والے کسانوں میں مایوسی پھیل گئی ہے اور اگر حکومت دو ماہ سے احتجاج کرنے والوں سے بات چیت میں سنجیدہ نہیں ہے تو آپ اس پر کیسے قابو پائیں گے۔
مزید پڑھیں: کپڑے کے اوپر سے جسم کو ہاتھ لگانا جنسی ہراسانی نہیں، بھارتی عدالت
منگل کے روز اس ہنگامہ آرائی نے سالانہ فوجی پریڈ سمیت یوم جمہوریہ کی تقریبات کو دھندلا دیا جس کو کورونا وائرس کی وجہ سے پہلے ہی محدود کردیا گیا تھا۔
حکومت نے مظاہروں کو ناکام بنانے کے متعدد حربے کے طور پر دارالحکومت کے کچھ علاقوں میں میٹرو ٹرین اسٹیشن بند کردیے اور موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کردی تھی۔
کسانوں میں سے بہت سے پنجاب اور ہریانہ ریاستوں کے سکھ تھے جنہوں نے نومبر میں نئی دہلی مارچ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے انہیں روک دیا تھا۔
موسم سرما کی سردی اور متواتر بارشوں کے باوجود کسانوں کا عزم غیرمتزلزل ہے اور وہ شہر کے کنارے ڈیرے جمائے بیٹھے ہیں اور دھمکی دی ہے کہ اگر فارم قوانین کو منسوخ نہیں کیا گیا تو دارالحکومت کا محاصرہ کرلیں گے۔
ایک سیاسی تجزیہ کار نیرجا چوہدری نے کہا کہ حکومت صورتحال کا اندازہ لگنے اور اسی مناسبت سے تیاری کرنے میں ناکام رہی، اگر کسان پورے ہندوستان میں مشتعل ہیں تو آپ احتجاج کو مسترد نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ کچھ مخالف کسانوں کو اکساتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی کسانوں کا احتجاج آخر کیا رنگ لائے گا؟
پولیس کے بیان میں کہا گیا کہ کاشتکاروں سے جھڑپوں میں 86 اہلکار زخمی ہیں، ان میں سے متعدد افراد مظاہرین سے بچنے کے لیے قلعے کے علاقے میں ایک گہری خشک نالی میں کود پڑے کیونکہ مظاپرین کی تعداد پولیس سے زیادہ تھی۔
پولیس نے بتایا کہ ٹریکٹر الٹنے سے احتجاج کرنے والے ایک شخص کی موت ہو گئی لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ اسے گولی ماری گئی ہے۔
پولیس نے بتایا کہ احتجاج کرنے والے کسان منظور شدہ احتجاجی راستوں سے الگ ہو گئے اور تشدد اور توڑ پھوڑ کا سہارا لیا۔
پولیس نے بتایا کہ آٹھ بسوں اور 17 نجی گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے اور انہوں نے مظاہرین کے خلاف توڑ پھوڑ کے الزام میں چار مقدمات درج کیے۔
حکومت کا اصرار ہے کہ ستمبر میں پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کیے گئے زرعی قوانین کاشتکاروں کو فائدہ پہنچائیں گے اور نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پیداوار میں اضافہ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کسان کے ’قتل‘ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
لیکن کسانوں کو خوف ہے کہ یہ زراعت کارپوریٹ شکل اختیار کر جائے گی اور انہیں پیچھے چھوڑ دے گی، حکومت نے قوانین کو 18 ماہ کے لیے معطل کرنے کی پیش کش کی ہے لیکن کسان مکمل منسوخی سے کم کسی بھی چیز کے لیے راضی نہیں ہیں۔
دوسری بار اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے مودی حکومت کو مسلسل متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔