پاکستان

پی ڈی ایم کا الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج، فارن فنڈنگ کیس نمٹانے کا مطالبہ

ہمارے 80 وکلا کو اڑا دیا گیا،اس کا قاتل معلوم نہیں ہے،ادارے اپنا کام چھوڑ کر سیاست دانوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، محمود خان اچکزئی
| |

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس کے فیصلے میں تاخیر پر شدید احتجاج کیا گیا اور کیس کو جلد نمٹانے کا مطالبہ کیا۔

پی ڈی ایم کے احتجاج میں اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، محمود خان اچکزئی، اخترمینگل، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، امیرحیدر خان ہوتی سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔

پی ڈی ایم کے اس احتجاج میں چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری شریک نہیں ہوئے اور وہ سندھ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی پر منعقدہ جلسے میں شریک تھے۔

خدا کو مانو! اس ملک پر رحم کرو، محمود خان اچکزئی

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 'ہم کسی کے غلام نہیں ہیں، ہم اس ملک کو بچانا چاہتے ہیں، اس ملک کو بچانے کے لیے مریم نواز، پیپلزپارٹی، مولانا فضل الرحمٰن کو عوام کو منظم کرنا پڑے گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دنیا میں جس انسانیت پر جو مظالم ہوئے اس کا مقابلہ عوام نے اپنی تنظیم اور طاقت سے کیا ہے، ہمارے ملک کے تمام ادارے فیل ہوچکے ہیں، خیبر پختونخوا میں 400 بچوں کو قتل کیا گیا ان کے قاتل معلوم نہیں ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے صوبے میں پولیس کے 500 اہلکاروں کو قتل کیا گیا، ہمارے 80 وکلا کو اڑا دیا گیا، اس کا قاتل معلوم نہیں ہے، کیونکہ جاسوسی اداروں نے اپنا کام چھوڑ کر سیاست دانوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں'۔

محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ 'خدا کو مانو اس ملک پر رحم کرو، اس ملک میں نواز شریف 3 مرتبہ وزیراعظم رہے، یوسف رضا گیلانی، راجاپرویز اشرف وزیراعظم رہے، اگر کوئی پاکستان کو بچانا چاہتا ہے تو یہ بھوک اور پیاس ہے'۔

فارن فنڈنگ کے الزام میں اے این پر پابندی لگی تھی، اختر مینگل

بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ جس آئین کی بنیاد پر یہ ملک کھڑا ہے یہ عوام اسی آئین کی بالادستی چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوس اس ملک کے حکمرانوں ، اسٹیبلشمنٹ نے اپنے جوتوں اور بوٹوں تلے اسی آئین کو روندا ہے۔

اختر مینگل نے کہا کہ اگر کسی چھوٹے صوبے کی جماعت ہوتی تو کب کا اس کی قیادت کو لٹکا دیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ فارن فنڈنگ کے الزام پر ہی عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگا کر اس کے قائدین کو صوبوں تک محدود کردیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انصاف کہاں ہورہا ہے، اگر کسی کے انصاف دیکھنا ہے تو بلوچستان کی حالت دیکھ لیں، جس ترازو میں انصاف فراہم کیا جانا تھا اس میں ہمارے بچوں کی لاشوں کے لوتھڑے، بزرگوں کی پگڑیاں اور خواتین کی عصمتیں تولی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک مساوی حقوق فراہم نہیں کیے جاتے اس وقت یہ گاڑی آگے نہیں چلے گی، جعلی آپریشنز کو ختم کرنا ہوگا۔

عمران خان 6 سال سے حساب نہیں دے رہے ہیں، آفتاب شیرپاؤ

سربراہ قومی وطن پارٹی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام طبقہ فکر کے افراد آج الیکشن کمیشن کے سامنے جمع ہیں کیونکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اپنا حق اور انصاف مانگنے آئے ہیں، یہ آئین پر عمل درآمد کے لیے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈھائی سال پہلے الیکشن میں دھاندلی ہوئی جبکہ 6 سال سے عمران خان فارن فنڈنگ کی تلاشی نہیں دے رہا، ہ یہ ناانصافی کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔

آفتاب شیرپاؤ کا کہنا تھا کہ عمران خان اگر آپ کے فارن فنڈنگ اکاؤنٹس جائز ہیں تو گھبراہٹ کس بات کی ہے۔

عوام سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ آئین کے 62 اور 63 کے تحت اثاثے چھپانے اور غلط بیانی پر یہ نااہل ہوتا ہے، ہم عوام کی مرضی و منشا کی حکومت چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ حکمراں جماعت کے خلاف غیر ملکی ذرائع سے ہونے والی فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن میں تقریباً 6 سال سے زیر التوا ہے جو پارٹی کے بانی اور منحرف رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں دائر کیا تھا۔

اس فنڈنگ کی تحقیقات کے لیے الیکشن کمیشن نے اسکروٹنی کمیٹی بھی تشکیل دے رکھی ہے جس کے متعدد اجلاسوں کے باوجود اب تک اس کیس کا کوئی منطقی انجام سامنے نہیں آیا، چنانچہ پی ڈی ایم جماعتیں اس تاخیر کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔

حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کے احتجاج میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالنے کا اعلان کیا گیا تھا، اس موقع پر دارالحکومت کی سیکیورٹی انتہائی سخت کی گئی اور پولیس نے ریڈ زون کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو سیل کردیا۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن اور دیگر نے پی ڈی ایم احتجاج میں شرکت کے لیے سیاسی رہنماؤں کی قیادت میں اسلام آباد آنے والے ریلیوں کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔

قبل ازیں احتجاجی منصوبے سے آگاہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بتایا تھا کہ مختلف علاقوں سے آنے والی پی ڈی ایم کی ریلیاں کشمیر چوک پر اکھٹا ہو کر الیکشن کمیشن روانہ ہوں گی جبکہ پی ڈی ایم قیادت مولانا فضل الرحمٰن کے گھر سے شاہراہ دستور پہنچے گی۔

یہ بھی پڑھیں؛پی ڈی ایم کے احتجاج سے قبل اسلام آباد کے سیاسی ماحول میں تناؤ

مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز، بلوچستان نیشل پارٹی (مینگل) کے صدر اختر مینگل، پختونخوا ملی عومی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور پی پی پی رہنما شیری رحمٰن پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پہنچے تھے، جہاں احتجاج کے انتظامات اور سیکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی گئی تھی۔

اس ملاقات میں مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنما، سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور خرم دستگیر بھی اس ملاقات میں شریک تھے۔

مزید پڑھیں:پی ڈی ایم کو ریڈ زون میں پہلی مرتبہ داخلے کی اجازت ہوگی، شیخ رشید

احتجاج سے قبل یہ بات سامنے آئی تھی پی ڈی ایم کی قیادت کے مطابق حزب اختلاف کی جماعتیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عمارت کے باہر ریلی نکالیں گی تاکہ کمیشن پر دباؤ ڈالیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف غیرملکی فنڈنگ ​​کیس دوبارہ شروع کرے اور اس پر فیصلہ کرے، ان کا کمیشن کے ہیڈ کوارٹر کے باہر دھرنا دینے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور یہ جلسہ دو سے تین گھنٹوں کے بعد منتشر ہوجائے گا۔

دوسری جانب سماجی روابط کی ویب سائٹ پر ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ 'اسلام آباد کی شاہراہوں پر ٹریفک کی روانی عمران خان کی جمہوریت پسندی کا ثبوت ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'قوم نہیں بھولی جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو پرامن احتجاج کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا، قوم سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی کبھی بھلا نہیں سکتی'۔

سیکیورٹی انتظامات

حکومت کی جانب سے اس احتجاج کے انعقاد میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی البتہ اعلان کیا گیا تھا کہ اگر احتجاج میں شریک افراد کی جانب سے کوئی گڑبڑ کی گئی تو اس سے سختی نمٹا جائے گا۔

اس ضمن میں وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے وفاقی دارالحکومت میں پی ڈی ایم کے احتجاج کے موقع پر درپیش صورتحال خود مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا۔

شیخ رشید نے سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کے ہمراہ خصوصی کنٹرول روم کا دورہ کیا اور وہاں سہولیات کا جائزہ لیا، کنٹرول روم سے اسلام آباد کو مانیٹر کیا جارہا تھا۔

دوسری جانب انتظامیہ نے پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ جیسی اہم عمارتوں کے حامل ریڈ زون کو 10 جماعتی اپوزیشن اتحاد کے کارکنوں کے آنے سے پہلے ہی محفوظ کر لیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کی عمارت کے سامنے احتجاج کے سلسلے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے بچنے کے لیے پولیس کے ایک ہزار سے زائد جوان و افسران کو تعینات کیا گیا ہے۔

ان کے علاوہ پاکستان رینجرز کے 3 سو اہلکار بھی پولیس کی معاونت کے لیے موجود تھے۔

الیکشن کمیشن عمارت کے اندرونی حصے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری سیکیورٹی ڈویژن کے ذمے جبکہ باہر کے حفاظتی انتظامات آپریشنز ڈویژن انجام دے رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج میں رکاوٹ نہیں بنیں گے، وفاقی حکومت

ڈیوٹی پر موجود تمام جوانوں و افسران کو آتشیں اسلحہ پاس نہ رکھنے ہدایت کی گئی تھی اور صرف رینجرز اہلکاروں کے پاس آتشیں اسلحہ موجود تھا۔

کسی بھی ممکنہ گڑ بڑھ کے نتیجے میں گرفتاریوں کے لیے اسپیشل برانچ اور سی آئی اے کے اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

اس کے ساتھ ساتھ ریڈ زون کے تمام داخلی راستوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی جبکہ وزیراعظم کے دفتر سمیت اہم عمارتوں کے باہر رینجرز اہلکار فرائض کی انجام دہی کے لیے موجود تھے۔

انتظامیہ نے الیکشن کمیشن کی عمارت کو کنکریٹ کے بلاکس اور خاردار تاریں لگا کر مکمل طور سیل کردیا گیا تھا جبکہ عمارت کے اندر اور باہر بھاری تعداد میں اہلکار تعینات رہے۔

امریکی صدر کی تقریب حلف برداری، واشنگٹن فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرنے لگا

پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس: نیب نے نواز شریف کے تمام اثاثے قرق کردیے

ورون دھون آئندہ ہفتے شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے؟