ٹرائل کی تکمیل کے ساتھ ہی چینی ویکسین کی جلد رجسٹریشن متوقع
اسلام آباد: نوول کورونا وائرس پاکستان میں روزانہ درجنوں جانیں لے رہا ہے اور ایسے میں چین کی سرکاری کمپنی سینوفارم سے کووڈ-19 ویکسین کی درآمدات کی راہ میں حائل واحد رکاوٹ جلد دور ہو جائے گی جہاں کراچی میں اس کا فیز ون ٹرائل آخری مرحلے میں پہنچ گیا ہے۔
ایک علیحدہ پیشرفت میں وفاقی حکومت نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (پمز) اسلام آباد میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹیٹیوشن آرڈیننس متعارف کروانے کے بعد سندھ کے تین بڑے ہسپتالوں اور پنجاب کے ایک بڑے ہسپتال میں اس کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ملازمین گزشتہ کئی ہفتوں سے اس اقدام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
مزید پڑھیں: کووڈ 19 کے مریضوں میں نمونیا پھیپھڑوں کے لیے زیادہ تباہ کن
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ایک دن میں مزید 2 ہزار 40 لوگوں کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا اور 41 اموات ہوئیں جبکہ پاکستان بھر میں اس وقت 320 وینٹی لیٹرز زیر استعمال ہیں، اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ملتان میں 58 فیصد وینٹیلیٹر زیر استعمال ہیں، اس کے بعد بہاولپور کے 50 فیصد وینٹیلیٹر، اسلام آباد کے 36 فیصد وینٹیلیٹر اور پشاور کے 32 فیصد ہیں، این سی او سی کے مطابق ملک بھر میں فعال کیسز کی تعداد 34 ہزار 7 ہے۔
رواں سال مارچ میں تشکیل دی گئی کووڈ-19 سائنسی ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر غزنا خالد نے ڈان کو ویکسین ٹرائل کی موجودہ صورتحال کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تقریباً ٹرائل مکمل کر لیا ہے کیونکہ صرف 10 رضا کار رہ گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس ویکسین کا چھوٹا اور پہلے مرحلے کا ٹرائل کروانے کی ضرورت ہے لہٰذا انڈس ہسپتال کے اشتراک سے انٹرنیشنل سینٹر برائے کیمیکل اینڈ بیولوجیکل سائنسز کراچی (آئی سی سی بی ایس) میں یہ ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس دوران ڈریپ کے ساتھ ویکسین کے اندراج کا عمل بھی جاری ہے اور ابھی تک یہ بات کی جارہی ہے اور چند دن میں ویکسین کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) سے منظوری لی جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فیز ون ٹرائل کو کلینیکل ٹرائل کے ساتھ الجھن میں نہیں ڈالنا چاہیے کیوں کہ اب تک چین، دبئی اور ابوظبی میں 10 لاکھ افراد کو ویکسین دی گئی تھی لہٰذا اس سلسلے میں صرف چھوٹے ٹرائل کی ضرورت تھی جسے فیز ون ٹرائل کہا گیا ہے، کلینیکل ٹرائل کے بعد ویکسین پہلے ہی منظور کرلی گئی ہے اور اسے ذخیرہ کرنا آسان ہے تاہم اس کی قیمت سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے لہٰذا میں اس سے واقف نہیں ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان: ڈیڑھ ماہ میں کورونا کے فعال کیسز میں 15 ہزار تک کی کمی
ڈاکٹر غزنا نے بتایا کہ اس ویکسین کی افادیت 86 فیصد ہے اور انفیکشن کی 100 فیصد روک تھام کرتا ہے۔
کووڈ۔19 پر سائنسی ٹاسک فورس کی سربراہی معروف سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن کر رہے ہیں اور ان کے علاوہ ڈاکٹر غزنا خالد، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم، پروفیسر ال فرید ظفر، پروفیسر اقبال چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر خالد خان اور پروفیسر مریم ریاض تارڑ شامل تھے، یہ ٹاسک فورس 24 مارچ 2020 کو وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے تشکیل دی تھی۔
بعد ازاں 30 دسمبر 2020 کو وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات اسد عمر کی زیر صدارت کووڈ 19 ویکسین کی خریداری کے لیے خصوصی کابینہ کمیٹی نے چینی کمپنی 'سینوفارم' سے ویکسین کی 11 لاکھ خوراک لینے کا فیصلہ کیا تھا، یہ اعلان بھی کیا گیا کہ 5 لاکھ فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو یہ ویکسین فراہم کی جائے گی کیونکہ ہر کارکن کو دو خوراکیں دی جائیں گی اور خرابی کا مارجن 10 فیصد تھا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ یہ تجربہ 150 صحت مند رضاکاروں پر کیا جا رہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ مختلف نسلی گروہوں پر ویکسین کس طرح کا رد عمل ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈریپ جلد ہی ویکسین کے استعمال کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اجازت جاری کردے گی جب حکومت نے ویکسین کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے لیکن ایک بار فیز ون ٹرائل، جسے 'سیفٹی ٹرائل' بھی کہا جاتا ہے، وہ مکمل ہوجائے گا تو یہ ممکن ہوگا کہ ہم ویکسین کی تجارتی درآمد بھی شروع کر دیں۔
مزید پڑھیں: ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں کورونا وائرس کی تیسری نئی قسم دریافت
ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ حفاظتی مطالعہ آخری مرحلے میں ہے اور تکمیل کے بعد اس کے نتائج کو ڈریپ اور چینی کمپنی دونوں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔
ڈریپ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر ضروریات پوری ہو چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کیسوں کو اندراج بورڈ کے سامنے رکھنے کے لیے ویکسین کی فروخت کا معاہدہ اور فیز ون کے ٹرائل کے ڈیٹا کا مطالبہ کیا ہے، دستاویزات مکمل ہونے کے بعد ہنگامی خریداری کے لیے منظوری دے دی جائے گی۔
ہسپتال
دریں اثنا وفاقی حکومت نے سندھ اور پنجاب کے چار ہسپتالوں میں میڈیکل ٹیچند انسٹیٹیوشن (ایم ٹی آئی) متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نومبر 2020 میں صدر ڈاکٹر عارف علوی کے ذریعے اعلان کردہ ایم ٹی آئی آرڈیننس پہلے ہی پمز اسلام آباد میں نافذ ہوچکا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ ہسپتال بورڈ آف گورنرز (بی او جی) کے ذریعے چلائے جائیں گے، آرڈیننس کے مطابق ایم ٹی آئی کے بعد بورڈ آف گورنرز ہسپتالوں کے تمام معاملات نمٹائیں گے، بورڈ آف گورنرز کے پاس ہسپتالوں کے کاموں پر مکمل طور پر نگرانی اور کنٹرول ہو گا اور وہاں کام کرنے والے افراد سرکاری ملازمین کی حیثیت سے محروم ہوجائیں گے۔
پمز کے ملازمین کا خیال ہے کہ ہسپتال کی ’نجکاری‘ کر دی گئی ہے کیونکہ اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے خود اپنی آمدنی پیدا کرنا ہو گی، وہ کئی ہفتوں سے آرڈیننس کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ویکسین آنے میں وقت لگے گا، وائرس کی تیسری لہر سے بچنے کی کوشش کرنا ہو گی، اسد عمر
وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کی طرف سے جاری کردہ اور ڈان کو ساتھ دستیاب ایک نوٹیفکیشن کے مطابق ایم ٹی آئی آرڈیننس 2020 کے شیڈول میں چار کے قریب ہسپتالوں کو شامل کیا گیا ہے۔
کراچی (سندھ) اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی)، قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن ہیلتھ (این آئی سی ایچ) کراچی (سندھ) شامل ہیں اور چوتھا ہسپتال لاہور کا شیخ زید پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ ہے۔