پاکستان

وفاق کو خصوصی عدالتیں ہائی کورٹ کے ماتحت کرنے کی ہدایت

انتظامی مشکلات بالخصوص عملے پر نگران انتظامی کنٹرول کا فقدان مقدمات کو تیزی سے نمٹانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نشاندہی کی ہے کہ خصوصی عدالتیں، حکومت اور وزارت قانون کے انتظامی اختیارات کے تحت کام کررہی ہیں اور ساتھ ہی وفاقی حکومت کو ان عدالتوں کو عدالت عالیہ کے ماتحت کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹن اطہر من اللہ نے جبری گمشدگی اور حکومتی محکموں کے ریئل اسٹیٹ کاروبار سے متعلق ایک جیسی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ 'فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کو حکومت کی ایک شاخ کنٹرول اور اس کا انتظام سنبھالتی ہے جو وزارت قانون ہے'۔

عدالت نے کہا کہ عملے کی نگرانی یا کنٹرول ہائی کورٹ نہیں کرتی جو انصاف کے حق کو متعصب کرتا ہے، یہ انتظامی معاملات سپریم کورٹ کے ذریعے نافذ شدہ اختیارات کی علیحدگی کے اصول کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا بیوروکریٹس کی ترقی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ

عدالت نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر کو یہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی کیوں کہ خصوصی عدالتوں کی جانب سے انتظامی نا اہلی اور کنٹرول کا فقدان گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت کی ہے کہ احتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات روزانہ کی بنیاد پر سنے جاسکتے ہیں اور احتساب عدالتیں زیر التوا مقدمات تیزی سے نمٹانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کرچکی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ تاہم انتظامی مشکلات بالخصوص عملے پر نگران انتظامی کنٹرول کا فقدان مقدمات کو تیزی سے نمٹانے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

عدالت نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس، جس میں خصوصی عدالتیں موجود ہیں، کی حیثیت اور سپریم کورٹ کے ذریعے نافذ شدہ قانون کی روشنی میں عدالتی عملے کا انتظامی کنٹرول ہائی کورٹ کو منتقل کرنے کے حوالے سے ایک رپورٹ طلب کرلی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا سیکریٹری خارجہ کو نواز شریف کی حاضری یقینی بنانے کا حکم

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو جوڈیشل کمپلیکس میں قائم خصوصی عدالتوں اور احتساب عدالتوں کے رجسٹرار سے ایک مشترکہ رپورٹ طلب کرنے کی ہدایت کی گئی۔

علاوہ ازیں رجسٹرار کو ان پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کا کہا گیا جو خصوصی عدالتوں کا کنٹرول متعلقہ ہائی کورٹس کو منتقل کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

اس معاملے کی مزید سماعت 13 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

یہاں یہ بات مدِنظر رہے کہ سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے قانونی اصلاحات نے کہا تھا کہ احتساب عدالتوں کے ساتھ خصوصی عدالتیں بغیر کسی 'چیک اینڈ بیلنس' کے کام کررہی ہیں اور نہ تو یہ عدالتیں ہائی کورٹ اور نہ ہی وزارت قانون کے زیر نگرانی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد: حکومت یا کوئی اور تنقید سے بالاتر نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

کمیٹی نے خصوصی عدالتوں کا سیشن عدالتوں میں انضمام کا جائزہ لیا اور کہا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی خصوصی عدالتیں اور احتساب عدالتیں کسی نگرانی یا چیک اینڈ بیلنس کے بغیر کام کررہی ہیں۔

خیال رہے کہ احتساب عدالتیں، انسداد دہشت گردی عدالتیں، انسداد منشیات عدالتیں، خصوصی جج (ایف آئی اے) مرکزی عدالتیں، برقی جرائم کی روک تھام ایکٹ کی عدالتیں، ماحولیاتی تحفظ کی عدالتیں، انٹیلیکچوئل پراپرٹی ٹریبونل، کسٹم، ایکسائیز اور سیلز ٹیکس ٹریبونل سمیت دیگر عدالتیں خصوصی عدالتوں کے زمرے میں آتی ہیں۔