پاکستان

لاپتا شہری کیس میں سرکاری حکام پر ایک کروڑ روپے جرمانہ

پولیس حکام اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے، شہری 6 سال سے لاپتا ہے لیکن تحقیقات ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی، عدالت
|

اسلام آباد: ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا فرد کے ٹھکانے کا سراغ لگانے میں ناکامی پر حکام پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے قرار دیا کہ حکومتی ادارے شہریوں کے تحفظ کے لیے ذمہ دار ہیں اور سیکریٹریز داخلہ اور دفاع، سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور گولڑا تھانے کے اسٹیشن ہاؤس افسر اپنی قانونی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ متعدد مرتبہ عدالت کی ہدایات کے باوجود یہ لوگ 6 برسوں میں لاپتا شہری غلام قادر کے ٹھکانے کا سرغ لگانے میں ناکام رہے۔

مزید پڑھیں: جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

جسٹس محسن اختر کیانی نے حکام پر جرمانہ عائد کرتے ہوئے خبردار بھی کیا کہ اگر وہ ایک ماہ میں لاپتا فرد کو بازیاب کرانے میں ناکام رہے تو انہیں محکمہ جاتی انکوائری کا سامنا کرنا پڑے گا، بعد ازاں عدالت نے غلام قادر کے بھائی کی دائر کردہ درخواست نمٹا دی۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پولیس حکام اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاپتہ فرد کے کیس میں یہ حکام پر عائد ہونے والا سب سے بڑا جرمانہ ہے، اس سے قبل عدالت نے اسی طرح کے 2 مقدمات میں ریاستی اداروں پر 40 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا۔

ماہ اگست میں جسٹس محسن اختر کیانی نے حکام کو غلام قادر کی بازیابی کے لیے 7 ہفتوں کا وقت دیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ ناکامی کی صورت میں سخت حکم جاری ہونے پر خبردار کیا تھا۔

مذکورہ شخص غلام قادر اگست 2014 میں لاپتا ہوا تھا۔

عدالت کی جانب سے اس امر پر افسوس کیا گیا کہ شہری 6 سال سے لاپتا ہے لیکن تحقیقات ابھی تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ لاپتا فرد ہوسکتا ہے افغانستان چلا گیا ہو اور اس سلسلے میں بھی تحقیقات جاری ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز جبری گمشدگیوں کے حوالے سے انکوائری کمیشن نے بتایا تھا کہ ملک میں جبری طور پر لاپتا کیے جانے والے افراد میں سے 3 ہزار 796 کا سراغ پتا لگایا جاچکا ہے۔

انکوائری کمیشن کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لاپتا افراد سے متعلق اب تک 6 ہزار 921 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں سے 2 ہزار 184 افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے، 857 افراد کو نظر بند کردیا گیا جبکہ 535 کو جیلوں میں قید کردیا گیا۔

جبری طور پر لاپتا کیے گئے ان افراد میں سے 220 کی لاشیں برآمد ہوئیں جبکہ 3 ہزار 796 افراد کا سراغ لگا لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کیلئے مسودہ تیار’

واضح رہے کہ پاکستان میں لاپتا افراد یا جبری گمشدگیوں کا معاملہ بہت سنگین ہے، ان افراد کے اہلِ خانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے عزیزوں کو جبری طور پر سیکیورٹی ادارے لے جاتے ہیں اور پھر انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی متعدد مرتبہ اس معاملے پر آواز اٹھاتی اور لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔

یاد رہے کہ جولائی 2018 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ نامعلوم مقامات سے شہریوں کی گمشدگی اور اغوا میں ملوث شخص پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔

بھارت کی ریاست آسام میں اسلامی مدارس پر پابندی کا قانون منظور

جبری لاپتا افراد میں سے 3 ہزار 800 کا سراغ لگا لیا، انکوائری کمیشن

برطانیہ میں 12 سالہ بچی نے ٹک ٹاک کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا