پاکستان

شیخ رشید سے اختیارات کی کوئی جنگ نہیں، شہزاد اکبر

وزیر ہونے کے ناطے شیخ رشید کے پاس اختیارات ہیں، احتساب کسی کے رتبے کے مطابق نہیں بلکہ بلاتفریق ہونا چاہیے، میڈیا سے گفتگو

وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ان کی شیخ رشید سے اختیارات کی کوئی جنگ نہیں اور وزیر ہونے کے ناطے شیخ رشید کے پاس اختیارات ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہزاداکبر نے کہا کہ ہر شخص اور ہر ادارہ قابل احترام ہے، سلیم مانڈوی والا بھی قابل احترام ہیں، آپ کو قانون پسند نہیں تو قانون بدل لیں، قانون میں ترمیم کی گنجائش ہے۔

مزید پڑھیں: شہزاد اکبر کا عہدہ تبدیل، وزیر اعظم کے مشیر مقرر

انہوں نے کہا کہ شیخ رشید اور میری اختیارات کی کوئی جنگ نہیں، یہ عدالت اپنے فیصلوں میں مشیروں کے اختیارات کا تعین کر چکی ہے، شیخ رشید وزیر ہیں تو ان کے پاس اختیارات ہیں، ہم مشیر ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کے وارنٹ جاری کریں گے تو شہزاد اکبر نے کہا کہ اگر چیک باؤنس ہونے پر مقدمہ درج ہو تو کیا ایس ایچ او کے خلاف بھی کارروائی کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ احتساب کسی کے رتبے کے مطابق نہیں بلکہ بلاتفریق ہونا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر نے کہا کہ میرا کام وزیر اعظم کو تجویز دینا ہے، وزیر اپنے ادارے کا خود مختار ہوتا ہے اور شیخ رشید سے اختیارات کی کوئی جنگ نہیں۔

مشیر داخلہ نے کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے برطانوی حکومت سے بات چل رہی ہے، نواز شریف اور برٹش ایئرویز کی پرواز کا کوئی لنک نہیں، نواز شریف کی ڈیپوٹیشن کا فیصلہ حکومت برطانیہ نے کرنا ہے جو ابھی تک نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'شہزاد اکبر بھیس بدل کر نیب کے دفتر آتے ہیں'

اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے انصاف کی فراہمی میں تاخیر کے کیس پر سماعت کی جس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں عام آدمی جاتا ہے، وہ کبھی ترجیح رہی ہی نہیں ہے، جو ججز ڈسٹرکٹ کورٹ میں کام کرتے ہیں ان کی حالت بہت افسوس ناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جوڈیشل کمپلیکس کا چکر لگا کر ان کی حالت دیکھیں، احتساب عدالت کے ججز کے پاس عملہ نہیں ہے، فیصلہ لکھوانے کے لیے جج کے پاس عملہ نہیں ہے اور سفارش کے کلچر نے اس پورے نظام کو تباہ کر دیا ہے۔

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ کوئی اس جوڈیشل کمپلیکس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ میں ججز کے بیٹھنے کے لیے جگہ نہیں ہے، احتساب عدالتوں پر کام کا سب سے زیادہ دباؤ ہے، عدالت امید کرتی ہے کہ وزیراعظم جوڈیشل فورمز پر توجہ دیں گے۔

مزید پڑھیں: سلیم مانڈوی والا سینیٹ کو ذاتی فوائد کیلئے استعمال نہیں کر سکتے، شہزاد اکبر

انہوں نے وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہزاد اکبر صاحب آپ جا کر جوڈیشل کمپلیکس کا ایک چکر لگا لیں۔

اس پر شہزاد اکبر نے جواب دیا کہ ضلعی عدالتوں سے متعلق وزیراعظم کو بریف کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ احتساب کے مشیر بھی ہیں، احتساب عدالتوں کی حالت بھی جا کر دیکھیں، سپریم کورٹ روزانہ کی بنیاد پر کیسز کی سماعت کا کہہ چکی ہے۔

چیف جسٹس نے شہزاد اکبر کو ہدایت کی کہ آپ احتساب عدالتوں کا دورہ کر کے وزیراعظم کو بریفنگ دیں۔

مشیر برائے احتساب نے کہا کہ یہ میری اپنی بار ہے اور میں انہی عدالتوں میں پیش ہوتا رہا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا ایک رات میں نہیں ہوا، 40 سال سے کسی نے توجہ نہیں دی، خصوصی عدالتوں کے ججز دن رات کام کرنے کو تیار ہیں لیکن وہاں عملہ بھی تعاون نہیں کرتا۔

یہ بھی پڑھیں: 'عمران خان! ابھی تو تم میرے احتساب کے شکنجے میں ہو'

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس کا عملہ وزارت قانون کے ماتحت ہے، خصوصی عدالتوں میں اسٹینوٹائپسٹ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں، خصوصی عدالتوں کا عملہ ہائی کورٹ یا خصوصی عدالتوں کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔

انہوں نے وکلا کو ہدایت کی کہ شہزاد اکبر صاحب کو جوڈیشل کمپلیکس کا ایک دورہ کروائیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ایک وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ماسک پہنیں، آپ ایس او پیز کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر صاحب یہاں موجود ہیں، جرمانہ بھی عائد کر سکتے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ اس عدالت نے بالکل درست فیصلہ دیا ہے، ہمارے پاس ایگزیکٹو کا اختیار نہیں، ہم صرف مشورہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شہزاد اکبر صاحب، زمینوں پر قبضوں کے بے تحاشہ کیسز آرہے ہیں، یہ ریونیو افسر کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، یہ سب مس گورننس کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: نااہل حکمران نے اپنی نااہلی کا خود اعتراف کرلیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں انصاف کی فوری فراہمی کا عمل موجود نہیں، اس 1400 مربع میل میں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے۔

اس موقع پر شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ قبضہ مافیا کی سفارش پر تو ایس ایچ او، تحصیل دار اور دیگر عہدوں پر تعیناتیاں ہوتی ہیں، حکومت دو سال سے چیئرمین سی ڈی اے نہیں لگا سکی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں زمینوں پر قبضے کا ایک بھی کیس ناقابل برداشت ہے۔

مشیر داخلہ و احتساب نے کہا کہ خصوصی عدالتوں کی ورکنگ کنڈیشنز بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ورکنگ انوائرمنٹ بہت اہم ہوتا ہے، آپ عدالتوں کی تعداد بے شک نہ بڑھائیں، ان کی ورکنگ کنڈیشنز بہتر بنائیں۔

عدالت نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول سے متعلق رپورٹ بھی طلب کر لی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کو عفریت بنا دیا گیا ہے، اس کو اب بند کرنا ہوگا، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ

چیف جسٹس نے کہا کہ خصوصی عدالت کے ایک جج نے کہا کہ میں خود ٹائپنگ کرتا ہوں کیونکہ عملہ ہی نہیں، اسٹاف کا دل ہوتا ہے تو وہ چھٹی پر چلا جاتا ہے، جج کی کوئی سنتا ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ ضلعی عدالتیں وفاقی حکومت کی ترجیح میں ہیں، شہزاد اکبر صاحب اس عدالت کو آپ پر اعتماد ہے، اب آپ نے ذمہ داری لے لی ہے تو امید ہے یہ کام ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کام نہیں ہوتا تو پھر عدالت کو فیصلہ دینا پڑے گا اور حکومت اس پر عملدرآمد کی پابند ہے، شہزاد اکبر صاحب ضلعی عدالتیں پرائیوٹ کمرشل عمارتوں میں بنی ہیں، جو ان عمارتوں کے مالک ہیں ان کو کرایہ تک ادا نہیں کیا جا رہا، اس معاملے کو بھی دیکھ لیجیے گا کہ ان کو کرایہ ادا کر دیا جائے۔

عدالت نے شہزاد اکبر سے خصوصی عدالتوں اور اسلام آباد کچہری سے متعلق رپورٹ بھی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔

جب پاکستان نے مودی کی جارحانہ حکمتِ عملی پر سوالیہ نشان لگادیے!

ڈینیئل پرل کیس: بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی کالعدم قرار، رہائی کا حکم

کورونا کے خوف میں دب جانے والی 2020 کی بہترین فلمیں